webnovel

Chapter : 1

وہ کب سے سونے کی کوشش کر رہی تھی

پر پریشانی کی وجہ سے نیند اسکی آنکھوں سے بہت دور تھی

پریشانی تھی بھی تو اس

وہ ایک اسکول میں پڑھتی تھی

جہاں پر غریب اور یتیم بچوں کو فری تعلیم دی جاتی تھی ایک ٹرسٹ کا اسکول تھا

جس کو میر الله و دین نے بنوایا تھا اور اسکے سارے اخراجات وہی اٹھاتے تھے انہوں نے اسکول کو بہت شاندار بنوایا تھا

ایک پرفیکٹ اسکول تھا

ہر طرف پینٹینگ کی ہوئی تھی

گارڈن میں بہت ہی خوبصورت پودے پھول درخت تھے ہر جگہ کو دیکوراٹڈ کیا ہوا تھا

میر الله و دین صاحب کی ڈیتھ ہونے کے بعد اسکول کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑھا کیوں کے میر الله و دین صاحب کی موت کے بعد ان کے بیٹوں نے اسکول کو چلانے سے صاف انکار کر دیا

اور جیسے تیسے کر کے اسکول کی پرنسپل میڈم نے کچھ عرصے کے لیے اک انسٹیوٹ ڈھونڈا جو کچھ وقت کے لیے اسکول کے اخراجات اور ضروریات کے کام میں

مدد کر دے

جب تک اسکول کو کوئی اچھا اور پرمنینٹ سپورٹ کرنے والا نا مل جائے

اور بہت کوششوں کے بعد اب جاکے ایک ٹیم ملی تھی جو ٹرسٹ کو چلنے کا ذمہ لے رہی تھی پر انکی شرط تھی کے پہلے وہ کچھ ٹائم کے لیے اوبسرو کرے گے کے یہ اسکول واقعی میں ضروریات نہیں اٹھا سکتا اور اسکو ہیلپ کی ضرورت ہے

اِس لیے وہ پہلے اوبسرو کرے گے بعد میں یہ فیصلہ کرے گے کے وہ اِس تروستی اسکول کی ذمہ داری اوٹھے گے یا نہیں

وہ ٹیم اسکول کے * غریب اور یتیم بچوں * کی تعلیم کے لیے کم کرے گی

انکی سڑی روایات پوری کرے گی جو جو چیز ان کو ڈر کر ہونگی وہ موہیا کرے گی

جیسے میر الله و دین صاحب کرتے تھے

ان کے اسکول کی پرنسپل میڈم سائقہ سخت عورت تھی

اور ہر چھوٹی چھوٹی بات پر دانٹ دیتی تھی اور پاریشا تو انکا شکار تھی

کیوں کے پاریشا ہمیشہ کچھ نا کچھ ایسا کام کر دیتی تھی کے ان کو غصہ آجاتا تھا

کبھی لیٹ آنا

کبھی فائل وقت پے نا پونچھنا

تو کبھی بچوں کے ساتھ مل کر شرارتیں کرنا

بچوں کے ساتھ مل کر وہ بالکل بچی بن جاتی تھی اور ایسے ہی چھوٹی چھوٹی اور غلطیاں بھی پاریشا سے اکثر ہوجاتی تھیں

پر میڈم سائقہ کو پاریشا بہت اچھی لگتی تھی کیوں کے وہ اک بہت ہوشیار تھی اور بیسٹ ٹیچر تھی اور وہ اسکے بابا کی کلاس فیلو بھی تھی اسی وجہ سے پاریشا کو بچپن سے ہی جانتی تھی

اسکی غلطیوں کو سودارنے کے لیے وہ اسکی دانٹ ڈاپٹ کر دیا کرتی تھی

اور اسکو دھمکی دیتی تھی کے اسکول سے نکال دیا جائے گا تمہیں اور کبھی کا بار اسکو پیار سے بھی بتاتی تھی کے نیو ٹیم میری جیسی نا ہوگی کے تمھاری غلطیوں کو اگنور کرے

یہی بات تھی جو پاریشا کو اداس کر رہی تھی کے کہی یہ نیو ٹیم سٹریک نا ہو

اگر ایسا ہوا تو اسکی شامت آنی تھی

اور نیو ٹیم نے اسکو اسکول سے باہر پھینک دینا تھا

اور وہ اب ایسا کوئی رسک نہیں لینا چاہتی تھی کے اسکی سیلری کم ہو یا وہ نوکری سے ہی ہاتھ گوا بیٹھے کیوں کے یہ جاب اس کے لیے بہت ضروری تھی گھر میں بیٹھی بیٹھی وہ بور ہو جاتی تھی

اگر یہ جاب چلی گئی تو اسکے بابا اسکو دور کسی اسکول میں جاب کرنے کی پرمیشن نہی دیں گے

اور اگر سیلری کم ہوگئ تو کیا فائدہ پورا ماہینہ محنت کر کے بھی کچھ ہاتھ میں نا آئے

اِس وجہ سے آج ساری رات اسکو نیند نہیں آئی تھی یہی سوچ سوچ کے

اور آلارم کے بجنے سے پہلے ہی وہ بیڈ سے اٹھ پرہی

جب سے وہ یونیورسٹی سے آئی تھی صبح سویرے اٹھنا اسکی عادت ہوگئ تھی حسب معمول وہ فجر کی نماز کے لیے وضو کر کے نماز کو کھڑی ہوگئ اور اللہ سے دعا کرنے لگی کے یا اللہ سب بہتر کرنا پِھر قرآن پاك کی تلاوت کر کے سارے گھر کا کام نبٹانے میں لگ گی

ناشتہ بنانے کے لیے کچن میں گئی تاکہ جلدی جلدی كھانا بنا کے وہ اسکول کے لیے ٹائم پر نکلے خھانا بنانے کے بعد اپنے بابا کے روم میں انکا ناشتہ لیکر گئی وہی پر اس نے ایک دو نوالے کھا لیا اور جلدی سے تیار ہونے اپنے روم میں چلی گی

وہ کبرڈ کی طرف بڑھی اور اک پرنٹڈ شرٹ ساتھ ہی ہم رنگ دوپٹہ اور پجامہ نکالا

جلدی سے واشروم میں گھس گی

جیسے ہی وہ واشروم سے نکلی وال کلاک پر نظر پڑھی جلدی جلدی میں بالوں کا جوڑا بنا کے ہیر کلپ اس میں ڈالی

سَر پے سہی سے دوپٹہ سیٹ کیا اور اک لمبی چوڑی شال اپنے اوپر اوڑ لی

پرس اٹھا کے اپنے بابا کے روم میں گئی ان کو اللہ حافظ کہنے کے لیے

پِھر جلدی سے باہر کی طرف بھاگنے لگی

کیوں کے جلدی سے بس اسٹاپ پر اسکو پوچھنا تھا ورنہ بس چلی جاتی

اور ہر روز کی طرح وہ آج پھر بس مس کر چکی تھی

جس کی وجہ سے اس کو اسکول تک پیدل جانا پڑھا کیوں کے کوئی رکشہ بھی نظر نہیں آ رہا تھا اور اسکو بہت لیٹ ہو رہی تھی

جیسے ہی وہ اسکول پونچی سانسے پھول رہی تھیں

تیز سپیڈ سے چلی تھی جیسے اسکے پیچھے کتے پڑھ گئے ہوں

چوکیدار کو سلام کر کے وہ اندر داخل ہوئی

اور دبے دبے قدموں کے ساتھ اسٹاف روم میں جانے لگی تاکہ کوئی ٹیچر اس کو دیکھ نا لے اور پھر سے اسکو میڈم سے لیکچر سنا پڑھ جائے

صبح صبح اسکو لمبا سا لیکچر نہیں سنا تھا

پر جس بات کا ڈر تھا وہی ہوا

پیچھے سے صباء کی زور داَر چیخ آئے ھائے پاریشا !

آج پھر لیٹ آئی ہو میڈم کو پتہ چلا تو تمھاری خیر نہیں

صباء کے چہرے پر شیطانی بھری مسکراہٹ تھی اور اس نے سَر پکڑ لیا اور دل ہی دل میں کہنے لگی کس شیطان سے ٹکرا گئی

پھر اس نے شکل بنا کر صباء کو دیکھا جو شیطانی مسکراہٹ سے اسکو دیکھ رہی تھی

پاریشا نے کہا کے اگر تم نے یہ کیا تو میں میڈم کو بتا دونگی تم نے اس دن علی محسن کو منہ پر تھپڑ مارا تھا

وہ بے چارہ بچہ رَو رہا تھا تمیں تو پتہ ہے پرنسپل کو یہ بالکل پسند نہیں کے بچوں پر ہاتھ اٹھایا جائے

اور تم نے تو اسکے منہ پر مار دیا

پھر دیکھنا تمھاری کیسی شامت آتی ہے

صباء کے تو جیسے ہوش ہی اُڑ گئے وہ ہکا بقا رہ گئی کے اسکو کس نے بتایا

اور وہ الٹے منہ چلی گی

پاریشا نے سکھ کا سانس لیا

شکر کرنے لگی کے یا اللہ تو نے بچا لیا ورنہ اِس ناگن سے میں کیسے بچتی

* ناگن کہی کی کوئی موقع نہی چوڑتی مجھے مروانے کا * اس نے منہ بنا کر آہستہ سے کہا

وہ جیسے ہی اسٹاف روم میں گھسی کچھ ٹیچرز ہی بیٹھی ہوئی تھی باقی سب کلاس لینے گئی ہوئی تھیں

پاریشا نے سب کو سلام کیا اور جلدی سے بَڑی چادر اتاری اور دوپٹے کو سیٹ کیا

اب اسکی نظر اسٹاف روم کے ارد گرد گھوم رہی تھی وہ اپنی فرینڈ شفاء کو ڈھونڈنے لگی جب وہ نظر نا آئی تو سمجھ گئی کے وہ کلاس لینے گئی ہوگuی

اس نے بھی اپنی چیئر پر چادر رکھی اور بیٹھ گی

نو بج رہے تھے آج اسکی کلاس نو بجے اسٹارٹ ہونی تھی اِس لیے وہ ٹائم دیکھتے ہی اٹھ پڑی اور کلاس کی جانب رخ کر لیا

جیسے ہی وہ کلاس روم میں اینٹر ہوئی پوری کلاس نے گرم جوشی سے ہر روز کی طرح استقبال کیا

گڈ مارننگ میم

ہائو ار یو میم؟

اس نے بھی سب کو گڈ مارننگ کہا اور فائن کہہ کر سب بچوں کو سیٹ ڈاؤن کہا سب بچے اپنی چیئرس پر بیٹھ گئے اور سب بچوں نے

تھنک یو میم بولا

وہ بھی اپنی چیئر پر بیٹھ گی

دو گھنٹے کی کلاس لیکر جب وہ باہر نکلی تو اچانک اس کو یاد آیا کے آج ٹِیم آئے گی یا نہیں

11 : 30 پر بِریک ھوگی شاید وہ لوگ ( ٹِیم ) بِریک کے بعد آیے

میں شفاء سے معلوم کرتی ہوں‌ پکا وہ اسٹاف روم میں ھوگی

وہ جیسے ہے اسٹاف روم میں داخل ہوئی کچھ کچھ ٹیچرز بیٹھیں تھیں

ساتھ ہی اسکی فرینڈ شفاء بھی بیٹھی ہوئی تھی جس نے جلدی سے پاریشا کو ہاتھ سے اشارہ کر کے اپنے پاس والی چیئر پر بیٹھنے کا کہا

پاریشا نے بھی دیر نا کی اور جلدی سے جاکے بیٹھ گی اور پھر شفاء نے خاصی اسکی دانٹ لگائی کے اتنا لیٹ کرتی ہو

عزت پیاری نہی ہے کیا تمیں

روز انسلٹ کروانے کے موقع ڈھونڈتی ہو

تب ہی پاریشا نے معصوم شکل بنا کے جوب میں کہا میں کیا کروں کام کرتے کرتے لیٹ ہو جاتی ہوں

اور بس بھی نکل جاتی ہے اوپر سے پیدل آنا پڑھتا ہے میں بیچاری ننھی سی جان کیا کیا کروں

شفاء نے کہا اچھا اچھا بس سن لیا ڈرامہ کوئین کہی کی

پاریشا نے اسکو بازو پر تھپڑ مارے

اور دونوں ہسنے لگیں

تب ہی پاریشا نے پوچھا کے آج وہ ٹِیم والے آ رہے ہیں کے نہیں

شفاء نے اسکو بتایا کے وہ آج نہیں آ رہے ہیں کیوں کے ان کے باس کا بہت بڑا بزنس ہے کوچ بزنس کی ڈیلینگس کی وجہ سے مصروفیت ہیں ان کی

اِسی وجہ سے وہ سب یہاں آرام سے آئے گے تاکہ وہ یہاں کا سارا کام چیک کر سکیں

سنا ہے بہت امیر لوگ ہیں پاریشا نے صرف ہممم کہہ کر چہرہ بگھڑا

ابھی بِریک ٹائم ہونے لگا تھا وہ اور شفاء دونوں چائے کی چکیاں لے رہی تھیں اور ساتھ ساتھ لنچ کرنے لگی تھیں

پاریشا تو لنچ نہی لیکار آتی تھی پر شفاء ہمیشہ اپنا اور اسکا لنچ لیکر آتی تھی

پاریشا اسکو منع کرتی تھی پر وہ نہی مانتی تھی

دونوں لنچ کرنے لگیں اور ادھر اُدھر کی باتیں کرنے لگیں ٹائم نکل گیا اور بِریک ٹائم پورا ہو گیا

دونوں اپنی اپنی کلاس لینے چلی گیں

ایک بجے پاریشا اپنی کلاس لیکر آجاتی اور ساتھ ساتھ شفاء بھی آ جاتی آج دونوں جلدی فارغ ھوگئیں تھیں

پھر چھٹی ہو گئی دونوں واپسی پے گھر اک ہی بس مین نکلتی تھیں

بس میں سے پہلے شفاء کا گھر آتا تھا وہ پہلے اُتَر جاتی تھی پھر پاریشا جاتی تھی

پاریشا گھر آتے ہی اپنے روم میں چلی گئی اور

فریش ہوکر اپنے بابا کے روم میں چلی گئی

انکا حَل احوال لیا اور ان کو میڈیسن وغیرہ دیں

~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~

پاریشا کی ماں بابا کی پسند کی شادی تھی اور ماں پٹھان تھی

کسی شادی پر اسکے بابا کو پسند آیی تھی خاندان میں کوئی رازی نا تھا کیوں کے پاریشا کی ماں یتیم تھی اپنے چچا کے یہاں رہتی تھی پر پھر پاریشا کی دادی شادی کے لیے رازی ہوگئ اپنے بیٹے کی خوش کے لیے

پاریشا کی ماں پاریشا کو جنم دے کر اِس دُنیا سے چلی گئیں پاریشا چھوٹی سی جان کا کوئی نا تھا جو اسکا ماں جیسا خیال رکھے اسکے بابا اسکی دیکھ بھال کرتے تھے پر ان کو بھی کام پر جانا ہوتا تھا دادی بھوڑی تھیں تھوڑا بہت کر لیتی تھیں اور ایک چچی تھی پر وہ دیکھتی تک نا تھی

تبھی اسکی دادی نے پاریشا کے بابا کی شادی اپنی بھانجی سے کروانے کا سوچا اور اسکے بابا سے بات کی پر پاریشا کے بابا نے منع کر دیا

دادی نے ان کو سمجایا کے پری ابھی بہت چھوٹی ہے اسکی دیکھ بھال کون کرے گا اسکو ابھی سے ماں مل جائے گی

اور ماں کا پیار ملے گا بس پھر اسکے بابا رازی ہوگے

شادی سادگی سے کر دی

دوسری ماں کے آنے کے بعد بھی پاریشا کو دادی نے پالا اسکی سوتیلی ماں اسکو دیکھتی تک نا تھی

وہ دادی کے ساتھ بہت خوش رہتی تھی انکا خیال رکھتی تھی ان کو تنگ بھی کرتی تھی کیوں کے شرارت کے جراثیم اسکے اندر جو تھے تبھی اسکی دادی اسکو شیتانوں کی نانی کہتی تھیں

وقت کے ساتھ اسکے چچا کی فیملی بھی الگ ہوگئ اسکے بابا گورنمنٹ ایڈوکیٹ تھے اچھی خاصی انکی سیلری تھی ساتھ ساتھ چھوٹی سی سائڈ بزنس بھی کرتے تھے اور ان کے کچھ شوپس رینٹ پر دے ہوئے تھے وہاں سے بھی کرایہ آتا تھا

کسی چیز کی کمی نا تھی ان کو ہر سکھ تھا گھر ھی بہت اچھا تھا اسکے بابا کو گھر بنانے کا بہت شوک تھا وہ اپنے گھر کو ہمیشہ سیٹ رکھتے تھے

ہر چیز تھی ان کے گھر میں ہر آرائِش تھی

وہ اپنے بابا کی بہت لاڈلی تھی

وہ ہر چیز اسکو لاکر دیتے تھے تاکہ اسکو کبھی اپنی ماں کی کمی محسوس نا ہو

پر جب وہ سات سال کی ہوئی تو دادی بھی اللہ کو پیاری ہوگیئں

~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~

پاریشا بہت ہی ہوشیار اور ذہین بچی تھی پر شرارتی بھی بہت تھی

شروع سے ہی اسکو پڑھنے لکھنے کا بڑا شوق تھا

ساتھ ساتھ شرارتیں کرنا بھی نا بھولتی تھی پڑوس میں کوئی ایسا نا تھا جو اسکی بدماشیوں سے تنگ نا ہو

پڑھائی وہ جی جان سے کرتی تھی اور ہر بار اچھے نمبرز سے پوزیشن لیتی اور اچھے مارکس لینے پر بابا اسکو بہت پیار کرتے تھے اسکی تعریفیں کرتے تھے اسی وجہ سے اسکےسوتیلے بھائی بہن اور ماں غصے سے آگ بھگولا ہوتے تھے انکی نفرت میں دوگنا اضافہ ہوجاتا تھا

خیر سے پاریشا نے میٹرک مکمل کر لیا تھا اور اب میٹرک کے رزلٹ کا ویٹ کر رہی تھی

اسی دوران اسکے بابا نے اس سے پوچھا کے آگے کا کیا اِرادَہ ہے میں سوچ رہا ہوں تم میں بی بی ایس کرو تب ہی اس نے بابا سے کہا کے بابا مجھے سائنس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے میں ایم بی اے کرنا چاہتی ہوں تو اسکے بابا نے کہا کے ٹھیک ہے تم پہلا ایئر انٹر میتھس میں کر لو تو اس نے بھی یہی کیا

اسکے بھائی بہن اُس سے بہت جلتے تھے ہر کوشش کرتے تھے کے وہ نا پڑھ سکے

اور اسکی ماں اسکو ہر وقت کام پر لگا دیتی تھی

جب جب اسکے بابا گھر پر نا ہوتے تھے وہ اسکو ہہت اَذِیّت دیتی تھی کبھی کا بار تو مار بھی دیتی تھی اسکے بھائی بہن اسکو کھیل کھیل میں بہت مار دیتے تھے اور وہ بھی کچھ کم نا تھی اپنا بدلہ پورا کر دیتی تھی اپنے بابا سے شکایت نا کرتی تھی پر کوئی آیسا طریقہ کار نکال لیتی تھی کے ان کو سبق مل جاتا تھا

کبھی اپنے بابا کے سامنے جان بوجھ کر شیشے کا مگ توڑ دیتی اور اسکے بابا اسکی سوتیلی ماں کو کہتے کے اسکو صاف کر دو

اور وہ صاف کر دیتی تھی کیوں کے وہ اپنے شوہر کے سامنے پاریشا کو کچھ نا کہتی تھی

اور ایسے ہی کہی شرارتیں وہ کرتی تھی

انٹر کے ایگزام دینے کے بعد اس نے بابا سے فرمائش کی کے وہ آگے بھی پڑھنا چاہتی ہے تو اسکے بابا نے اسکو کہا کے وہ میتھس میں بیچلر کرے

اسکی دل کی خواہش پوری ہوگئ بابا مان گئے تھے

آخر وہ میتھس میں بہت اسٹرونگ تھی اس نے جی جان لگا کے ٹیسٹ کی تیاری کی اور بیچلرز کرنے کے لیے ٹیسٹ کلیئر کیا اور اچھے نمبرز حاصل کر کے اسکو اسلام آباد کی بیسٹ یونیورسٹی میں ایڈمیشن مل گیا

وہ بہت خوش تھی

تب ہی بابا نے اسکو بہت شاپنگ کروا دی کیوں کے دو یا تین مہینوں کے بعد اسکو یونیورسٹی کو جوائن کرنا تھا

اور وہ وہاں ہاسٹل میں رہے گی

دیکھتے ہی دیکھتے اسکے یونیورسٹی جانے کا ٹائم قریب آ گیا۔۔۔۔۔