webnovel

تکمیلِ_عشق

Abiha_Chudhary · Thành thị
Không đủ số lượng người đọc
3 Chs

chapter 2

تکمیلِ_عشق (آرمی بیس)

قسط_نمبر2 (ماہیر نے مچاٸ ہلچل ابیہان کی زندگی میں)

منتہا_چوہان

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

مشال اور ندا صبح اٹھیں۔ یونیورسٹی کے لیے تیار ہو کر نیچے آئیں۔ تو کار خالی تھی۔

یہ کہاں گئ۔۔! مشال نے ادھر ادھر نظریں دوڑائیں۔

شاید ۔۔۔بھاگ گئ ۔۔۔۔ہے۔۔۔!ندا نے رائے دی۔

لیکن۔۔گیٹ بند ہے۔کیسے جا سکتی ہے؟مشال پریشان ہوئی۔

وہ۔۔۔پٹاخہ ہے۔۔۔۔! کچھ بھی کر سکتی ہے۔اب زیادہ نہ سوچیں۔چلیں۔۔ ۔دیر ہو رہی ہے۔ندا نے کہا تو مشال سر ہلاتی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی۔

مشال فائنل آرٹس کا کورس کر رہی تھی۔تو ندا اکنامکس میں ماسٹرزکر رہی تھی۔دونوں ہی اپنی راہ پر گامزن ہو گئیں۔یہ سوچے بغیر کے ان کے جانے کے بعد ابیہان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔

ارے۔۔۔! یہ۔۔۔ابیہان کہاں ہے۔9بج گئے ہیں۔ آج آفس نہیں جانا اس نے۔۔۔؟

ثروت بیگم خود کلامی میں بولتیں ابیہان کے روم کی جانب بڑھیں۔خدا خبر کرے۔یہ لڑکا کبھی لیٹ تو ہوا نہیں۔۔۔! طبعیت نہ خراب ہو۔درواذہ کھٹکھٹایا۔دو تین دفعہ ناک کیا۔تو ابیہان آٹھ گیا۔

وال کلاک پر نظر ٹھہری۔تو یکدم ساری آنکھیں کھوکیں۔

وہ خدا۔۔! 9بج گئے۔میں اتنی دیر تک سوتا رہا۔! جھٹ سے بیڈ سے اٹھا۔تو دروازہ ایک بار پھر ناک ہوا۔ساتھ ثروت بیگم کی آواز بھی آئی۔وہ ابیہان کو پکار رہی تھیں۔اور ابیہان کی نظرصوفے پر سمٹی سمٹائی لیٹی بلکہ سوئی ہائی ماہیر پر جاٹھہری۔جو گھوڑے گھدے بیچ مزے سے سو رہی تھی۔

ابیہان بیٹا۔۔۔۔! کہاں ہو؟ دروازہ کھولو۔آواز پر ابیہان چونکااٹھو۔۔۔! اٹھ بھی جاؤ۔لڑکی۔۔۔! کیوں پھنسانا ہے۔ابیہان گھبرا گیا۔ اور یہ زندگی میں پہلی بار ہوا تھا۔

کیا ہے۔۔۔؟ سونے دو۔ ماہیر کی نیند میں ڈوبی آواز آئی۔

دروازہ ایک بار پھر بجا۔ تو مجبوراً ابیہان نے اسے اپنی بانہوں میں اٹھایا۔ اور بستر پر جا کر ڈالا۔ اور اس پر کمبل ڈال دیا۔ اس طرح کے محسوس نہ ہو۔ کہ کوئی لیٹا ہوا ہے۔ اور جھٹ سے دروازہ کھولا۔

جی مما۔۔۔۔! ابیہان نے لہجے کو نارمل بنایا۔

بیٹا۔۔! اتنی دیر لگا دی دروازہ کھولنے میں۔۔۔۔۔! طبعیت ٹھیک ہے نہ؟

ثروت بیگم پریشان سی اندر داخل ہوئیں۔ابیہان کی نظریں بیڈ پر تھیں۔کہ بس ماہیر جاگے نہ یاMoveنہ کرے۔

وہ۔۔۔باتھ میں تھا مما۔۔۔! رات کو ۔۔۔۔دیر سے سویا۔۔۔! تو آنکھ نہیں کھلی۔۔۔آپ چلیں۔۔۔میں بس پانچ منٹ میں تیارہو کر آتا ہوں۔

م۔۔! آپ نے بابا بھی جھاگ گئے ہوں گے۔ Breakfast ایک ساتھ کر لیتں۔۔۔۔اور۔۔۔پھر ۔۔آپ کے باباکو آپ سے ضروری بات بھی کرنی ہے کوئی۔جلدی آ جائیے گا۔ ثروت بیگم پیار کرتے ہوئے باہر نکلنے لگیں۔ کہ نسوانی آواز کانوں سے ٹکرائی۔ جیسے کسی نے سوئے ہوئے آنگڑائی لی ہو۔ ثروت بیگم ٹھٹکی۔ پلٹ کر ابیہان کو دیکھا۔ اس کے چہرے کا رنگ فق ہوا۔

❤️❤️❤️❤️

لیکن جھٹ سےSmile لے آیا۔

کوئی آواز سنی آپ نے،ثروت بیگم نے بیٹے سے پوچھا۔

نہیں۔۔۔نہیں تو۔۔۔! ابیہان نے ٹالا۔

مما۔۔! آپ چلیں۔۔۔میں بس پانچ منٹ میں آیا۔ثروت بیگم اپنا وہم سمجھ کر سر جھٹک کرباہر نکل گئیں۔ان کے جاتے ہی ابیہان نےدروازہ بند کیا۔ اور غصے سے پلٹا۔ آگے بڑھ کر ماہیر کے اوپر سے کمبل اٹھایا۔ ماہیر نے آنکھیں گھما کے دیکھا۔ وہ بیدار ہو چکی تھی۔ کچھ پل تو سمجھ نہ آیا۔ کہاں ہے۔ لیکن سامنے جلاد کو دیکھ کر پٹ سے آنکھیں خود کھل گئیں۔ پھر خود کو اس کے بیڈ پر لیٹ دیکھ جھٹ سے اس کے بیڈ پر کھڑی ہو گئی۔ اور بیڈ سے چھلانگ لگا کر دوسری سائیڈ سے نیچے اتری۔

وہ ابیہان کو آگے بڑھتا دیکھ چکی تھی۔

خدا کی قسم لے لی۔۔۔۔۔! مجھے نہیں پتہ۔ میں آپ کے بیڈ پر کیسے آئی۔۔۔۔۔۔! سچی مجھے نہیں پتہ۔۔۔! ما ہیر گھوم کے بیڈ کی سائیڈ سے نکل کر صوفے کے پیچھے جا کھڑی ہوئی۔ابیہان کو رہ رہ کر اس پر غصہ آ رہا تھا۔ مما دیکھ گئیں تو کیا۔۔! صبح بنت میراان کے آگے۔اںیہان سر جھٹک کر آگے بڑھا۔

ماہیر۔۔!میں نے کچھ نہیں کیا۔ ماہیر صوفے سے ہٹ کر پھر بیڈ کی سائیڈ بھا گی۔ جبکہ ابیہان باتھ روم کی جانب بڑھ رہا تھا۔ ماہیر کو لگا کے یہ پکڑ کر مارنے نہ لگ جائے۔ باتھ کا دروازہ بند ہوا تو ماہیر نے شکر کا کلمہ پڑھا۔ اور سوچنے لگی ۔کہ صوفے سے بیڈ پر آئی کیسے۔

☺️☺️☺️☺️☺️

ستجاب علی خان کے دو سپوت تھے۔ پرویز علی خان اور شاہ ویزعلی خان۔ خاندانی رئیس تھے۔ نوابوں کی نسل سے تعلق تھا۔ دونوں بھائی مل کر ایک ہی گھر میں اپنی اپنی فیملی کے ساتھ رہتے تھے۔ مستجاب علی خان کی وفات کے بعد دونوں بھائیوں نے کبھی خود ایک دوسرے سے الگ نہ سمجھا۔ پرویز علی خان کی شادی خاندان میں ہی کروا دی۔ ثروت بیگم بہت ہس مکھ اور پیار کرنے والی تھیں۔ بڑی بیٹی کی پیدائش(مشال پرویز) پر چھوٹے بھائی شاہ ویزعلی خان ایک لڑکی کو گھر لے آئے۔ بعد میں پتہ چلا۔ وہ بیوہ ہے۔ اور ایک بیٹے کی ماں بھی۔ بیٹا چار سال کا تھا۔ اور شاہ ویزکاہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ شاہ ویزعلی خان نے فروا کے متعلق بھائی کو سب بتا دیا۔ کہ وہ انہیں پسند کرتا تھا۔ لیکن گھر والوں نے اس کی شادی زبردستی کر دی۔ لیکن خدا کو کچھ اور منظور تھا۔ شوہر کی وفات کے بعد سسرال والوں نے فروا کو بھی گھر سے بے دخل کر دیا۔ شاہ ویزعلی خان کو پتہ چلا۔ پورا ایک سال وہ فروا کو منا تا رہا۔ لیکن وہ نہ مانی۔ اور بلا آخر آج آخری سہارا باپ وہ بھی اس دنیا سےچلا گیا۔ تو شاہ ویزعلی خان فروا کو نکاح کر کے گھر لے آیا۔ پرویز خان نے بھائی کی اس بات کو سراہا۔ اور اسے کندھے پر تھپکی ۔ وہ خوش تھے۔ ثروت بیگم نے بھی فروا سے بہت چاہت اور محبت کی۔ اور فروا بھی بہت محبتوں کو ترسی سب کو عزت واحترام دیا۔ ان کا بیٹا نوفل شاہ ویز کا دیوانہ تھا۔ وہ بہت چاہتا تھا۔ شاہ ویز کو۔ اور شاہ ویز بھی نوفل کو باپ کی طرح پیار کرتا تھا۔

☺️☺️😍😍

مشال سے دو سال چھوٹا ابیہان تھا۔ ابیہان کے آنے کے بعد گھر بھر کاوہ لاڈلابن گیا۔ اتنی چاہت اور محبت گھر کے وارث کو ہی ملتی تھی۔ نوفل کو تو نہیں۔ نوفل نے تو کبھی اس بات کو محسوس نہیں کیا۔ لیکن فروا کے دل میں ایک گرہ سی پڑ گئی۔ دن یونہی بیتے۔ نوفل کو فوجی بننے کا شوق تھا۔ لہذا وہ یونیورسٹی سے پاس آؤٹ کر کے کیڈٹ اکیڈمی جوائن کر لی۔ لیکن جاتے ہوئے ماں کو روتا چھوڑ کر گیا۔ اور ساتھ میں دو بہنیں جو جڑواں تھیں۔ نور اور حور۔ جو دونوں نوفل کو بہت عزیز تھیں۔ انہی کی ہم عمر تھیں۔ ثروت بیگم کی سب سے چھوٹی بیٹی ندا جو ابیہان سے دو سال چھوٹی تھیں۔

یہ ایک مکمل فیملی تھی۔ خوشحال اور محبتوں سے بھر پور۔

لاسٹ ٹائم جب نوفل گھر آیا۔ تو اس کی شادی کی بات چل نکلی۔ نوفل پہلے تو نہ مانا۔ لیکن ماں کے آگے ہار ماننی پڑی۔ شاہ ویز کا دل تھا۔ کہ مشال سے نوفل کا نکاح کر دیا جائے۔ اس بات کے لیے انہوں نے بھائی سے بات کی۔ پرویز علی خان اور ثروت بیگم نے بخوشی قبول کر لیا۔ نوفل بہت سلجھا اور شریف لڑکا تھا۔ اور مشال کے لیے انھیں نوفل سے بڑھ کر کون ہوتا۔ اور سب کی باہمی رضا مندی سے مشال اور نوفل کا نکاح ہو گیا۔ دونوں کے لیے یہ نکاح سرپرائز ہی تھا۔ دونوں نے کبھی ایسا نہیں سوچا تھا۔ لیکن بندھ ہی گئے دونوں ایک ہی بندھن میں۔ فروا بہت خوش تھی۔ بالآخر نوفل بھی اس گھر کا اب حقیقت ایک حصہ بن گیا تھا۔ اور ساتھ ساتھ حور کے لیے بھی راہ کھول دی۔۔

😏😏😏😏

فروا جانتی تھی۔ کہ حور ابیہان کو بہت پسند کرتی تھی۔ اور اب لگے ہاتھ موقع برابر دیکھ کر انہوں نے حور اور ابیہان کے رشتے کی بات بھی کرنی تھی۔ لیکن اس دوران شاہ ویز کا ناران کاغانن ائریا جانے کا پروگرام بن گیا۔ تو وہ اپنی فیملی کے ساتھ ایک ہفتے کے لیے وہاں چلے گئے۔ اور ابھی تک وآپس نہیں لوٹے تھے۔ (اس دوران) ماہیر کا قصہ چل نکلا۔ اب ماہیر ان کی زندگیوں میں کوئی طوفان لانے والی تھی۔ یا ڈھیروں خوشیاں؟ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔

وہ فریش ہو کر باہر نکلا۔ تو وہ وہیں صوفے کے پاس ایستادہ تھی۔ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے خود کو سنوارتے ایک نظر اس پر ڈالی۔ جو کن اکھیوں سے ابیہان کو دیکھ رہی تھی۔ ابیہان کی نظر اس کے حلیے پر گئی ۔ اس وقت وہ موم کی نازک سی گڑیا لگ رہی تھی۔ سفید رنگت چمکتی پیشانی وہ بہت پاکیزہ اور معصوم لگ رہی تھی۔ ابیہان نے سر جھٹکا۔ اور باہر جانے کے لیے ریڈی ہوا۔ اپنا کوٹ بازو پر ڈالا۔ اور بریف کیس اٹھایا۔ ماہیر کو وہ کہیں کو شہنشاہ لگا۔ آن بان ٹھان۔۔۔۔شہزادوں والوں۔ اور ماتھے پر غرور جچتابھی تھا۔

رات گزر گئی۔اور صبح ہو گئی۔ اب میرے وآپس آنے تک تم۔ یہاں نظر نہ آؤ۔ سمجھی۔ کڑے تیوروں اور مطمئین انداز میں کہتا ہوا وہ باہر نکلا۔ لیکن جیسے ہی نظر پرویز صاحب پر پڑی۔ گھبرا کر انہی قدموں واپس پلٹا۔

یہ۔۔۔! بابا اس طرف کیوں آ رہے ہیں؟ خود کلامی سے بولا ۔ پیچھے مڑ کر

😊😊😊😊

دیکھا تو وہ وہیں صوفے کے پاس کھڑی تھی۔ بابا ادھر ہی آ رہے ہیں۔ اب اس کا کیا کروں۔۔۔۔۔؟ ابیہان کے پاس زیادہ وقت نہیں تھا سوچنے کا۔ جلدی سے ماہیر کا بازو پکڑا اور اسے باتھ روم میں لے گیا۔

جب تک میں نہ کہوں ۔ باہر مت آنا۔ سمجھی۔ ورنہ مجھ سے بورا کوئی نہ ہو گا۔ غرا کے کہتا وہ دروازہ بند کر کے پلٹا۔ تبھی پرویز صاحب اندر داخل ہونے۔ اور اسی ہر بڑی میں ابیہان سے یہ غلطی ہو گئی۔ کہ وہ باتھ روم کو باہر سے لاک نہ کر سکا۔

ارے بابا جان! میں آ ہی رہا تھا۔ ابیہان نے نارمل انداز میں کہا۔

کوئی بات نہیں بیٹا! ہم آ گئے تو کیا ہوا۔ یہ فائل۔ ہے نئے پروجیکٹ کی سوچا study room میں آپ کے ساتھ Discuss کر لیں۔ پھر ایک ساتھ آفس نکلتے ہیں۔ پرویز صاحب نے اپنا پلان بتایا۔

وہ اکثر ایسے ہی اس کے روم میں آ جاتے تھے۔ اور پھر روم کے ساتھ منسلک Study room ( جو کے پورا ایک officeروم تھا) میں بیٹھ کر اپنی میٹینگ کر لیتے۔ لیکن آج یہ میٹینگ ابیہان کو بہت بھاری لگ رہی تھی۔ ابھی وہ Study room کی طرف بڑھے ہی تھے۔ چیختی چلاتی ماہیرباہر بھاگتی ہوئی آئی۔ اور آتے ہی ابیہان کے پیچھے چھپ گئی۔

پلیز۔۔۔۔پلیز۔۔۔پلیز ۔۔۔مجھےبچا لو۔۔۔ نہیں تو وہ مجھے کھا ۔۔۔۔۔جائیگی۔۔۔!! یہ سب بس پلک جھپکنے میں ہوا تھا۔ پرویز صاحب پلٹے۔ اس نسوانی وجود کو دیکھنے لگے۔ جو ابھی باتھ سے برآمدہو کر ابیہان کے پیچھے جا چھپا تھا ماشااللہ سےابہیان کی جوڑی پشت سےوہ چھوٹی سی لڑکی کہاں نظر آتی ۔

😑😑😑😑

پرویز صاحب کو لگا انہیں دوکھا ہوا ہے۔ ابیہان کے روم میں لڑکی۔۔۔! نہیں نہیں۔۔۔۔! نا ممکن۔۔۔! ابیہان لب بھینچتے غصہ قابو کئے کھڑا تھا۔ جبکہ وہ اس کی پشت سے چپکی دونوں ہاتھوں سے اسکے بازوں کو جکڑے کھڑی تھی۔ کون ہو آ پ۔۔۔! سامنے آؤ۔۔۔۔! پرویز صاحب اپنی حیرانی دور نہ کر پائے۔ ماہیر نے ابیہان کی پشت سے ایک سائیڈ گردن جھکا کر جھانک کر پرویز صاحب کو دیکھا۔ گہری سبز کانچ کی سی آنکھیں۔ پرویز صاحب ہکا بکا رہ گئے۔ اور حیرت سے ان کی آنکھیں پھیل گئیں۔ سوالیہ نظروں سے ابیہان کو دیکھا۔ ابیہان نے ماہیر کو بازو سے پکڑ کر سائیڈ پر کھڑا کیا۔ کہ اب تو نو ہونا تھا ہو گیا۔ اب ساری بات بابا کو بتانی تھی۔ لیکن یہ اس کی خوش فہمی تھی۔ آپ۔۔۔کون ہیں بیٹا۔؟ پرویز صاحب نے ماہیر کو سر سے پاؤں تک دیکھا۔

انکل۔۔۔۔! میں۔۔۔ماہیرہوں۔ آواز میں بھی وہی کھنک تھی۔ کچھ پل کے لیے تو پرویز صاحب کو یقین نہ آیا۔ کہ یہ سچ ہے یا ان کی آنکھوں کا دھوکہ۔

اب۔۔یہاں۔ ۔۔۔؟؟ الفاظ ساتھ نہ دے رہے تھے۔ پرویز صاحب کے پیار سے بات کرنے پر ماہیر کو بہت حاصلہ ہوا۔

انکل۔۔۔! میں رات سے یہی ہوں۔ الفاظ تھے کے گویا ایٹم بم۔۔۔۔!

ابیہان نے مڑ کر اسکی طرف خونخوار نظروں سے دیکھا۔ کہ جو بات بتانی چاہیے۔ وہ کیوں نہیں۔ بتا رہی۔ ابیہان کے اس طرح دیکھنے پرماہیر سہم گئی۔ اور ثروت بیگم ماہیر کے الفاظ سن چکی تھیں۔ دروازے میں ہی ساکت کھڑی رہ گئیں۔ کچھ پل خاموشی کی نظر ہو گئے۔

بابا۔۔۔ایسی۔۔۔ کوئی بات نہیں۔۔۔! اور تم۔۔۔۔سچ سچ بتاؤ۔۔۔!!

😑😑😑

ابیہان پرویز صاحب کو دھیرے سے کہ کر ماہیر سے کرخت لہجے میں بولا۔

ابیہان۔۔۔! بچی کوPressurlize مت کریں۔ پرویز صاحب سرد لہجے میں بولے۔ ابیہان آنکھوں میں بے یقینی لیے باپ کو دیکھے گیا۔

انکل۔۔۔۔! انکل۔۔۔۔! پلیز۔۔۔آپ۔۔۔۔ انھیں کچھ نہ کہیں۔۔۔یہ ۔۔۔۔بہت اچھے ہیں۔۔! ماہیر اب جلدی سے پرویز صاحب کے پاس آ کر بولی۔ کہ ابیہان کو اس کی وجہ سے ڈانٹ نہ پڑ جائے۔ اور ڈانٹ کھانے کے بعد وہ ماہیر کے ساتھ۔۔۔۔کیا کرے گا۔ وہ ڈر گئی۔

انکل۔۔۔! انہوں نے میرا بہت خیال رکھا۔ رات کو پیٹ بھر کر کھانا کھلایا۔ اتنا بھاری لہنگا تھا۔ تو انہوں نے خود مجھے۔۔۔اپنے کپڑے دیے پہنے کے لیے۔ اور پھر ۔۔۔۔۔رات کو آرام سے بستر پر سلایا۔ بہت خیال رکھامیرا۔۔!!

ماہیر نے اپنی طرف سے ابیہان کو بچانا چاہا۔ سارا جھوٹ بول کے۔ لیکن اسکی انہی جھوٹی باتوں سے ابیہان پھنس گیا۔

لہنگا۔۔؟؟ ثروت بیگم کی سوئی لہنگے پر ہی اٹک گئی۔ انھیں اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔ روم میں نظریں دوڑائیں تو سائیڈ صوفے کے ایک طرف لال رنگ کا لہنگا پڑا تھا۔ ثروت بیگم سر تھام کر رہ گئیں۔

یہ سب۔۔۔۔ کیا ہے ابیہان؟ پرویز صاحب اب زرا برہم ہو ئے۔

بابا۔۔۔! آپ۔۔۔مجھ پر شک کر رہے ہیں؟ ابیہان کو صدمہ لگا۔ آپ۔۔۔۔۔میرے ساتھ آئیں۔ پرویز صاحب یہ کہ کر باہر نکل گئے۔ اور ابیہان لب بھینچتے غصہ کی نظر ماہیر پر ڈال کر پرویز صاحب کے پیچھے گیا۔

☺️☺️☺️

آنٹی۔۔! پلیز آپ روئیں مت۔۔۔۔! انکل سے کہیں ناں۔۔۔کہ وہ۔۔۔ان کو کچھ نہ کہیں۔۔۔۔! وہ بہت اچھے ہیں۔۔۔۔! نجانے کیوں ڈر کے مارے ماہیر ابیہان کا نام تک نہیں لے رہی تھی۔ ثروت بیگم نے ایک نظر اس معصوم پر ڈالی۔ جس کے چہرے پر ابیہان کے لیے پریشان نمایاں تھی۔

ثروت بیگم کو سمجھ نہ آ رہا۔ کہ اس سے کیا پوچھیں۔۔۔۔کہ وہ کون ہے کہاں سے آئی ہے۔ بس اسکا چہرہ۔۔۔! ثروت بیگم اسکے چہرے کے معصومیت میں کھوسی گئیں۔ انھیں یہ لڑکی بھلی اور معصوم لگی۔ جس کی عمر لگ بھگ اٹھارہ انیس کے درمیان لگ رہی تھی۔ وہ بہت چھوٹی تھی۔ لیکن ابیہان کے لیے بہت پریشان تھی۔

ثروت بیگم کھڑی ہوئیں۔ اسکے سر ہاتھ پھیرا۔

میں۔۔آپ کے کھانے کے لیے کچھ بھجواتی ہوں۔ اور کپڑے بھی۔۔۔!

آپ۔۔۔۔یہ کپڑے چینج کر لیں۔ پھر بات کرتے ہیں۔ ثروت بیگم ماہیر کو ہکا بکا چھوڑ کر باہر چلی گئیں۔

یہ کیسی فیملی ہے؟ مجال ہے جو کسی نے مجھ سے ایک بار بھی پوچھا ہو۔ کہ میں کہاں سے آئی ہوں۔۔۔۔؟ کیسے یہاں پہنچی۔ ماہیر بیڈ کی سائیڈ پر بیٹھ کر تبصرہ کر نے لگی۔ اسے سب گھر والے کم عقل لگے۔ جب کے حقیقت میں وہ کم عقلی کر گئ تھی۔ جو اصل بات بتا کر ابیہان کو پھسا دیا۔

ابیہان۔۔۔!! یہ سب کیا ہے؟ آپ۔۔۔ایسے کیسے۔۔۔۔۔؟؟؟

بابا۔۔۔۔! آپ کو۔۔۔مجھ پر اعتبار نہیں؟ ابیہان کو دکھ ہوا۔

یہی بات تو دکھ دے رہی ہے۔ اعتبار اپنی جگہ۔۔۔لیکن۔۔۔جو ہم

😊😊😊😊

دیکھ کر آئے ہیں۔ اسے بھی تو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔

بابا۔۔۔! کبھی کبھار آنکھوں دیکھا بھی غلط ہو سکتا ہے۔۔۔۔آپ۔۔۔مشال آپی اور ندا کو گھر آ لینے دیں۔ اس کے بعد۔۔۔!!

معاملہ آپ کا ہے۔۔۔۔!آپ دونوں بہنوں کو اس میں کیوں انوالو کر رہے ہیں؟ پرویز صاحب نے ابیہان کی بات کاٹی۔

آپ کی دونوں بہنیں آپ سے بہت محبت کرتی ہیں۔ اور بہت عزت۔

ہم نہیں چاہتے کہ ان کے سامنے آپ کا امیج خراب ہو۔

ٹھرے ہوئے لہجے میں بہت سخت بات کہ گئے پرویز صاحب بابا صحیح کہ رہے ہیں۔ نجانے کون لڑکی ہے۔اور کس مقصد سے آئی ہے۔ نام تو اس نے مشال آپی اور ندا کا لے لیاہے۔ لیکن کیا پتا سچ کہ رہی تھی یا جھوٹ۔۔۔۔! ابیہان سوچ میں پڑ گیا۔

بابا۔۔!میرا اس لڑکی سے کوئی تعلق نہیں۔ ابیہان کہنے لگا۔ کہ اس سے پہلے پرویز صاحب بول پڑے۔

ابیہان ۔۔۔!کچھ بھی کہنے سے پہلے آپ یہ ضرور سوچ لیجیے گا۔ کہ آپ بھی بہنیں رکھتے ہیں۔ وہ لڑکی جو کوئی بھی ہے۔۔۔۔ہم ۔۔۔۔نہیں جانتے۔

لیکن ۔۔۔وہ رات بھر۔۔۔آپ کے روم میں رہی ہے۔۔۔۔!!اور جس حالت میں تھی وہ۔۔۔۔۔!! پرویز صاحب ایک دم چپ ہوئے۔

بابا۔۔۔۔! میں نے صرف۔۔۔اس کی مدد کی تھی۔۔۔۔! ابیہان بے بس ہوا۔

مجھے آپ پر پورا یقین ہے۔۔۔! لیکن بیٹا۔۔۔! لڑکی کی عزت بہت نازک ہوتی ہے۔ زرا سی آنچ آنے پر۔۔۔۔۔سب ختم ہو جاتا ہے۔

😐😐😐😐

وہ۔۔۔ابھی بہت چھوٹی ہے۔۔۔نا سمجھ ہے۔ زندگی کی پیچیدگیوں کو نہیں جانتی۔۔۔ ایک رات۔۔۔گھر سے باہر رہنا۔۔۔لڑکی کےلیے۔۔۔۔اس کی عزت کو کیسے برباد کر سکتا ہے۔ وہ ۔۔۔نہیں سمجھتی۔۔۔!!

پرویز صاحب اب ابیہان کی جانب مڑے۔

لیکن ۔۔۔۔آپ میرے سمجھدار بیٹے ہیں۔ آپ سے مجھے سمجھداری کی توقع ہے۔ پرویز صاحب ابیہان کو عجیب مشکل میں ڈال دیا تھا۔ نجانے بابا کیا کہنا چاہ رہے تھے۔ انہیں مجھ سے کیا امید ہے۔ لیکن اس سے پہلے کے وہ کسی فیصلے پر پہنچیں۔ مجھے بابا کو سب کچھ بتانا ہو گا۔ ابیہان نے دل میں پکا تہیہ کیاواپس پلٹ ۔تو پرویز صاحب نہیں تھے۔۔۔۔۔ بابا کہاں چلے گئے۔؟؟

ابیہان سوچتے ہوئے اپنے روم کی طرف آیا۔ تا کہ ماہیر کو سیدھا کر سکے۔ ماہیر پیٹ بھر نا شتہ کر کے۔ اور ثروت بیگم کے دبئے کپڑے پہن کر اب خود کو بہت فٹ محسوس کر رہی تھی۔ اب اسے آگے کا سوچنا تھا۔

بی جان سے رابطہ کرنا تھا۔ موبائل نمبر تو یاد تھا۔ لیکن۔۔۔ رابطے کے لیے بھی موبائل چاہیے تھا۔ ادھر ادھر نظریں دوڑائیں۔ ٹیبل پر ابیہان کا موبائل نظر آ گیا۔ خوش قسمتی سے موبائل پر پاسورڈ نہ تھا۔

جھٹ سے بی جان کا نمبر ملایا۔ تھوڑی دیر میں ہی کال اٹھا لی گئی۔

بی۔۔۔ جان۔۔۔! میں۔۔۔آپکی۔۔۔۔ہیرے۔۔۔! ماہیر کی آنکھیں نم ہو گئیں۔

میری جان۔۔۔۔! میرے ہیرے۔۔۔! کیسی بے تو۔۔۔؟ ٹھیک ہے ناں۔۔؟

😃😃😃😃

ہاں بی جان۔۔۔! ٹھیک ۔۔۔۔ہوں۔۔۔! آپ ۔۔۔کیسی۔۔۔اور ۔۔۔۔گھر میں۔۔!!

ہیرے۔۔۔! تو جہاں بھی ہے وئیں رہنا۔ خان کے بندے تجھے پاگل کتوں کی طرح ڈھونڈ رہے ہیں۔ ان کی عزت کا جنازہ جو نکلا ہے۔ ۔۔۔اور۔۔۔۔تیرا باپ بھی کم نہیں۔۔۔! پولیس کا سہارا لیا ہے۔ ! بس تو ان کے ہاتھ نہ لگنا میری جان۔۔۔ اپنا خیال رکھنا۔۔۔! بی جان رو پڑیں۔

اچھا۔۔۔! اب فون نہ کرنا۔۔۔! مجھے جب بھی موقع ملا۔ میں خود کروں گی۔ تیرا باپ ۔۔۔میری بھی نگرانی کروا رہا ہے۔۔۔! بس میری بچی ۔۔۔اپنا۔۔۔خیال رکھنا۔۔۔! اللہ تعالٰی نگہبان۔۔۔۔! بی جان نے فون بند کر دیا۔ ماہیر موبائل ہاتھ میں پکڑ کر رہ گئی۔ بی جان! میں نے تو آپ کو اپنا حال بتانا تھا۔

کہاں جاؤں میں؟ ماہیر کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔

ماہیر کو محسوس ہوا۔ کوئی پیچھے ہے جھٹ سے اٹھی۔اور مڑ کر دیکھا۔

موبائل والا ہاتھ پیچھے چھپا لیا۔ سامنے کھڑے سخت تیوروں سے ابیہان اسے گھور رہا تھا۔ ابیہان کی نظر اس کے ہاتھ پر پڑ گئی۔

کیا چھپا رہی ہو تم۔۔۔؟؟ خونخوار انداز میں پوچھا اور آگے بڑھا۔

نہیں۔۔کچھ نہیں۔۔۔! ماہیر سٹیٹا گئ۔ وہ بی جان کا نمبرDelete کرنا چاہتی تھی۔ تا کہ ابیہان کو نہ پتہ چل سکے۔ وہ آگے بڑھتا آ رہا تھا۔ ماہیر پیچھے ہوتی۔ دوسری سائیڈ سے بھاگی۔ ابیہان بھی پیچھے ہوا۔ وہ اچھلتی کبھی ادھر جاتی ۔ کبھی ادھر۔ ابیہان اس چھوٹی سی لڑکی کی اوٹ پٹانگ حرکتوں پر زچ آ گیا۔ ہاتھ آؤ میرے پھر بتاتا ہوں تمہیں۔ ابیہان دانت کچکچا کر بولا۔ ماہیر کا اعتماد آتا جا رہا تھا۔

وہیں رک جاٸیں۔ میں دیے دیتی ہوں۔

ابیہان نے نفی میں سر ہلایا۔

💌💌💌💌💌💌💌💌💌💌💌

آپ کچھ بھی کہہ لیں۔ ہمیں ابیہان پے پورا بھروسہ ہے وہکبھی ایسا کام نہیں کریں گے جس سے ہمارا سر شرم سے جھک جاۓ۔

ثروت بیگم نے سب باتیں کرنے کے بعد آخر میں ابیہان کی ہی طرف داری کی۔

انہیں اپنے بیٹے پے پورا بھروسہ تھا۔ وہ دل سے اس پے یقین کرتی تھیں۔

دل ہمارا بھی نہیں مانتا ثروت جی ۔۔ کہ ابیہان کچھ ایسا کر سکتےہیں۔ لیکن ۔۔ اس بچی کی وجود کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ پرویز صاحب کی پریشان کن آواز پے ثروت بیگم سوچ میں پڑ گٸیں۔

میں۔۔ اس لڑکی سے بات کرتی ہوں۔ دیکھتی ہوں۔ وہ کیا کہتی ہے۔۔؟؟

ثروت بیگم اٹھیں تھیں۔ ابیہان کے کمرے کی جانب بڑھیں۔ پرویز صاحب نے سختی سے آنکھیں موند لیں۔ وہ کیا سوچ رہے تھے ثروت بیگم اچھے سے جانتی تھیں۔ پرانے زخم ایک بار پھر تازہ ہو گۓ تھے۔

💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔

ابیہان جیسے ہی اس کی جانب بڑھنے لگا۔ماہیر پھر سے ایک ہی جست لگاتے بیڈ پے چڑھ گٸ۔ اور دوسری جانب سے اترنے لگی کہ ابیہان نے اسے جا لیا۔ لیکن خود ک بچاتے بچاے وہ بیڈ پے بری طرح جا گری۔ جبکہ ابیہان اسے پکڑنے کے چکر میں اس کے اوپر جا گرا۔ اس بات کا اس نے اچھا فاٸدہ اٹھایا ماہیر کے دونوں ہاتھ اوپر بیڈ پے پن کرتے اسے قابو کیا ۔ ماہیر مچلی تھی۔ لیکن ابیہان کی گرفت بہت مضبوط تھی وہ نازک سی لڑکی اس کی گرفت میں ہل بھی نہ پا رہی تھی۔

اپنی سخت آننکھوں سے وہ اسے گھور رہی تھی۔ ابیہان نے اس کے ہاتھ سے موباٸل لینا چاہا۔ کہ اس کی نظر ان دو گہری سبز آنکھوں میں جا ٹھہریں۔ جن میں ہلکی ہلکی نمی تھی.

اتنا مکمل اور پاک حسن آج تک ابیہان نے نہیں دیکھا تھا۔

اپنی تیٸس سالہ زندگی میں اس نے اس طرح کا حسن نہیں دیکھا تھا۔ آج تک کسی لڑکی کو اپنے قریب نہ آنے دینے والا ابیہان پرویز خان اس وقت ایک ایسی لڑکی کے حصار میں مقید ہو رہا تھا۔ جسے وہ جانتا تک نہ تھا۔

ماہیر ابھی بھی بن پانی کے مچھلی کی طرح تڑپ رہی تھی۔ اور بہت کوشش کر ہی تھی کہ ابیہان کو ہٹا سکے۔ جب کہ وہ تو مکمل سن ہی ہو گیا تھا۔ اس کی ایک ہارٹ بیٹ مس ہوٸ۔

ابیہان۔۔۔؟؟ آواز پے وہ چونکا اور ہوش میں آیا۔

موباٸل ہاتھ میں تھامے وہ جھٹ سے اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔

ماں کو یکھ وہ تھوڑا شرمندہ ہوا۔ جن کی آنکھوں میں انتہا درجے کی حیرت تھی۔ ماہیر بھی اٹھتے ہوۓ فوراً ایک طرف نظریں جھکا کے کھڑی ہو گٸ۔ اسے بھی پہلی بار زندگی میں سبکی محسوس ہوٸ۔

مما۔۔ جان وہ۔۔۔؟؟ ابیہان نے کچھ کہنا چاہا لیکن ان کی نظروں میں ایک عجیب سی کیفیت دیکھ وہ ایک دم چپ ہی ہو گیا۔

آپ کو بابا بلا رہے ہیں۔۔ ! اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا ثروت بیگم نے انتہاٸ سنجیدگی سے اسے کہا۔

ابیہان نے ماتھا مسلا۔ اور ایک کٹیلی نظر پلث کے ماہیر پے ڈالتا وہ باہر نکل گیا۔

ثروت بیگم جو وہر کے سامنے بیٹے کی ساٸیڈ لے رہی تھیں۔ اب خود بھی ڈگمگا گٸیں تھیں۔

آنٹی۔۔۔۔۔؟؟ ماہیر نے نم آنکھوں سے ثروت بیگم کو پکارا۔ ثروت بیگم کی آنکھوں میں کچھ تھا۔ کہ ماہیر نظریں چرا گٸ۔ اور ثروت بیگم باہر نکل گٸیں۔

اوہ۔۔۔ میرے اللہ کہاں پھس گٸ ہوں میں۔۔؟

مجھے یہاں سے نکلنا ہوگا۔۔۔! اس سے پہلے کے مزید میں یہں ک مصیبت میں پھس جاٶں۔۔؟؟

ماہیر نے ادھر ادھر دیکھا اور چپکے سے باہر نکلی۔ وہ جتنی جلدی ہو وہاں سے نکل جانا چاہیتی تھی۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

بابا ۔۔۔۔مما۔۔ آپ یہ کیاکہہ رہے ہیں۔۔؟ ابیہان کا دماغ گھوما تھا۔ پریوز خان اور ثروت بگم نے اسے انتہاٸ قدم اٹھانے کو کہا تھا۔

ابیہان ۔۔۔! ہم ایک عزت دار گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہماری روایات اور اقدار ہمیں ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ہم کیس کی بہن بیٹی کی عزت کو عزت نہ سمجھیں۔

آپ کا کہنا ہے کہ آپ نے اسکی مدد کی۔۔ ! صرف اتنا ہی۔۔؟؟ لیکن بات۔۔ یہ بھی ہے۔۔ کہ اس نے پوری رات ۔ آپ کے روم میں گزاری ہے۔

ابیہان نے ان کی بات پے سر اٹھا کے انہیں دیکھا۔

آج وہ صحح ہوتے ہوۓ بھی غلط ثابت ہو رہا تھا۔ صرف اس وجہ سے کہ وہ رات بھر اس کے کمرے میں رہی رہی تھی۔

ابہیان بیٹا۔۔۔۔۔! آپ وک رات کو ہی ہمیں بتا دینا چاہیے تھا۔۔۔ مجھے ۔۔ یا اپنی مام کو۔۔۔

ہم تب ہی کوٸ راستہ نکال لیتے۔۔۔ لیکن۔۔ آپ نے تو ہمارے لیے سارے راستے ہی بند کر دیٸے ہیں۔۔ یہ سب دیکھ کے ہم اپنی آنکھیں بند نہیں کر سکتے۔۔

پرویز خان کا کہا گیاہر لفظ ضرب بن کے ابیہان کے دل پے جا لگا۔ اس ا بس نہیں چل رہا تھا۔ کہ وہ اس لڑکی کا گلا گھونٹ کے مار دے ۔

بابا۔۔ مما۔۔ اگر آپ کی نظروں میں میں غلط ہوں۔ تو ٹھیک ہے ۔۔ آپ جو بھی سزا دیں گے۔۔ مجھے قبول ہے۔ مزید مجھے اپنی صفاٸ میں کچھ نہیں کہنا۔ ابیہان اپنی ریزرو طبعیت میں واپس لوٹ آیا۔ جو پہ دنیا کے لیے تھا۔ آج اپنے والدین کے بھی ویسا ہی ہو گیا تھا۔

وہی سرد وسپاٹ لہجہ۔۔۔ وہ اپنےاندر کی تکلیف اندر ہی چھپا گیا تھا۔

مزید کچھ نہ کہنے کی قسم کھا لی۔ جب والدین و اعتبار ہی نہ تھا۔ تو وہ کوں اپنے الفاظ ضاٸع کرتا۔

ایک چپ رکھ لی۔ اور روم سے باہر نکل آیا۔

ایک گہرا اور سرد سانس خارج کیا۔

مما۔۔ بابا۔۔آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں۔۔ اپنی اولاد پے پے اتنا کھوکھلا اعتبار۔۔؟

کیوں۔۔؟؟ ایک چھوٹا ںسا آنسو اس کی آنکھوں کا ایک گوشہ نم کر گیا۔ لیکن وہ ابیہان پروز خان تھا دنیا کو پاٶں تلے روندھنے والا۔ وہ اپنے خول میں واپس بند ہوا تھا۔

انجام کیپرواہ کیے بنا وہ اپنے روم میں آیا تھا۔ لیکن وہ وہاں نہیں تھی۔ پورے کمرے میں کہیں نہیں تھی۔

کہیں۔۔ وہ۔۔۔؟؟ کمرے کی ونڈو سے باہر جھانکتا وہ اسے گیٹ کے قریب ہی دکھاٸ دی۔

ابیہان نے فوراً رسیور اٹھاتے انٹرکام سے گارڈ کو اسے روکنے کا کہا۔

یہجو لڑکی باہر جا رہی ہے۔ اسے رکو۔۔ یہ باہر نہ جانے پاۓ۔

گارڈ سے کہتا وہ اب نیچے دیکھنے لگا۔

ایک رات میں۔۔صرف ایک رات میں۔۔ تمنے میری زندگی بدل کے رکھ دی۔۔۔ میرے اپنوں کا اعتبار ریت کی مانند بکھیر کے رکھ دیا۔ میں اتنی آسانی سے تو تمہیں نہیں چھوڑنے والا۔

اپنے ہاتھ کا مکا بنا کے ابیہان نے دیوار پے مارا تھا۔

گیٹ پے گارڈ نے سے روک لیا تھا۔ اور اب وہ گارڈ س بحث کر رہی تھی۔ ماتھےپے تیوری چڑھاۓ وہ نیچے کی جانب بڑھا۔

💘💘💘💘💘💘💘💘💘💘💘💘💘

بہت ڈھونڈ لیا شاہ صاحب۔۔ ہر جگہ ناکہ بندی بھی کرواٸ۔۔ لیکن۔۔۔ ؟؟ آپ کی بیٹی ماہیر کا کہیں بھی پتہ نہیں چلا۔

انسپکٹر شیر دل اس وقت مردان خانے میں اس وقت موجود تھا۔ اور شاہ صاحب آگ بگولہ ہوۓ ہوۓ تھے۔

دیکھو انسپکٹر۔۔ ! زمین کھودو۔۔ کہ آسمان پے جاۓ۔ مجھے میری بیٹی ڈھونڈ کے دو۔۔۔

اگر وہ ملکوں کے ہاتھ لگ گٸ تو۔۔؟؟ تو جانتےہو ناں۔ وہ اسکے ساتھ کیا کریں گے۔۔؟؟ آفتاب شاہ اس وقت بے بس باپ کی صورت میں نظر آرہے تھے۔

آپ فکر نہ کریں شاہ صاحب۔۔ ! ہم زمین آسمان ایک کر دیں گے۔۔ لیکن آپ کی بیٹی کو ھونڈ کے صحیح سلامت آپ تک پہنچاٸیں گے۔

بس دعا کریں۔ وہ جہلم کی حدود سے باہر نہ نکلی ہو۔

انسپکٹر شیر دل تو اپنی کہہ کے جا چکا تھا۔

لیکن آفتاب علی شاہ کا غصہ ساتویں آسمان پے تھا۔ بس ۔۔ ایک بار مل جاۓ وہ بدزات۔۔ اپنے ہاتھوں سے زندہ زمین میں گاڑھ دوں گا۔

جاری ہے۔