webnovel

تکمیلِ_عشق

Abiha_Chudhary · Urban
Not enough ratings
3 Chs

تکمیلِ_عشق قسط نمبر 1

وہ اندھا دھند بھاگی جا رھی تھی ۔اسے اردگرد کا کوی ھوش نہ تھا ۔بھاری بھرکم لہنگا دونوں ہاتھوں سے سنبھالے بس وہ دور تک نکل جانا چاھتی تھی۔ایک بار بھی پلٹ کر نہ دیکھا۔بھاری شال باربار کندھوں سے ڈھلکتی نیچے آتی لیکن وہ رکی نہیں۔بس دماغ میں ایک ہی بات گردش کر رھی تھی "ان درندوں سے بچ کر نکل جاوں" بی جی کی روندھی آواز کانوں میں بازگشت کرتی تو اس کے بھاگنے کی رفتار اور بڑھ جاتی.شام کے ساۓ اب گہرے ہوتے جا رہے تھے ۔جس جگہ وہ پہنچی وہاں رش نہ ہونے کے برابر تھا ۔یہ جہلم کا رپوش علاقہ تھا لیکن صحیح میں یہ کون سی جگہ تھی وہ سمجھ نہ پای۔۔۔کہ تبھی ایک بائیک قریب آکر رکی۔۔۔

اے خوبصورت گرل۔۔۔۔کیا میں آپ کی کوئی مدد کر سکتا ہوں؟اس کا انداز' اسکا دیکھنا اور اس کے الفاظ نے ماہیر کو سلگا کر رکھ دیا۔

ہاں۔۔۔! اپنی شکل یہاں سے دفعان کر دو۔بہت مہربانی ہو گی ۔۔وہ ماہیر تھی ڈرنے یا گبھرانے والی نہیں۔سامنے والے کو چاروں خانے چت کرنے والی ۔۔اتنا کہہ کر ماہیر سوچے سمجھے بنا آگے سڑک کے ایک طرف چلنے لگی۔۔۔۔

ارے ارے اتنا غصہ ۔۔۔اففف۔۔۔اتنی خوبصورتی پر اتنا غصہ سوٹ نہیں کرتا . وہ کوئی بہت ڈھیٹ اور لوفر قسم کا تھا۔ماہر کا راستہ روک کر کھڑا ہو گیا۔۔

تم میں شرم نام کی کوئی چیز ہے یا نہیں؟دفع ہو یہاں سے۔۔ماہیر نے غرا کر کہا ۔۔

بس بس ذیادہ ایکٹیگ کرنے کی ضرورت نہیں ۔۔۔! اتنی پارسا ہوتی تو شادی سے نہ بھاگتی ۔۔اس شخص نے نخوت سے اسے دیکھتے ہوے چوٹ کی۔۔ماہیر کی نظر اپنے حلیے پر گئ۔پھر لب بھینج کر اسے دیکھا اور اسے ایک تھپڑ رسید کر دیا۔

بکواس بند کرو اور نکلو یہاں سے۔۔انگلی کے اشارے سے دھمکایا۔۔

وہ تو اس لڑکی کی دیدہ دلیری پر حیران رہ گیا۔پھر آنکھوں میں ڈھیر سارا غصہ آیا ۔۔ماہیر سایئڈ سے ہو کر نکلنے لگی ۔۔کہ اس نے ماہیر کو بازو سے پکڑ کر اپنی طرف موڑا۔۔۔۔۔۔

تمہاری اتنی جرأت کہ تم مجھ پر ہاتھ اٹھاو ۔اب بتاتا ہوں میں تمہیں۔۔۔!

وہ ایک ایک لفظ چبا کر بولا۔ ماہیر کو کچھ سمجھ نہ آیا کہ کیا کرے ۔پھر ایک لمحہ بھی ضأئع کیے بغیر اس کی بازو پر زور سے دانتوں سے کاٹا۔اس شخص کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی تو ماھیر ہاتھ چھڑا کر بھاگی۔وہ درد سے کراہ کر رہ گیا ۔۔جنگلی بلی ۔۔۔اتنا بول کر وہ بائیک پر جا کر بیٹھا اور بائیک اسی کے پیچھے لگا دی ۔ماہیر اندھا دھند بھاگ رہی تھی ۔۔کبھی کوئی گلی مڑتی کبھی کوئی ۔۔کبھی سڑک پر تو دو منٹ بعد پھر کسی گلی میں گھس جاتی وہ اس شخص کو چکما دے رہی تھی پر وہ اس کے پیچھے پیچھے ہی تھا تبھی وہ ایک بڑے کار پارکنگ ایئریا میں پہنچ گئ اور گاڑیوں سے نکل کر آگے بڑھتی جا رہی تھی۔ پیچھے دیکھا تو وہ بائیک پہ آتا نظر آیا ماہیر سر پکڑ گر رہ گئ آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا۔۔ابھی ایک مصیبت سے جان چھڑا کر بھاگی تھی کہ دوسری گلے پڑ گئ۔۔۔ بی جان۔۔۔کہاں پھنسا دیا مجھے۔۔۔!ایڈونچر پسند ہے مجھے۔۔۔لیکن۔۔۔اتنا بھی نہیں۔۔!خود سے بڑبڑاتی وہ آگے بڑھتی گئی۔وہ بہت نڈر تھی۔ خطروں سے کھیلنا بچپن سے اسکی عادت تھی۔۔۔یونیورسٹی تک وہ بہت بہادر ہو گئی تھی اور زندگی کو جینے والوں میں سے تھی ۔۔۔۔ماہیر علی شاہ۔۔۔۔۔

ایک گاڑی پر ہاتھ رکھا تو اس کی ڈگی کھل گئی۔ماھیر حیران رہ گئی۔۔خدا ایسے بھی مدد بھیجتا ہے ۔وہ جھٹ سے ڈگی میں لیٹ گئی اور ڈگی بند کر دی۔اب وہ مطمین انداز میں کان باہر کی آواز پر رکھے ہوے تھی۔

ڈگی کا ہلکا سب ایک سائیڈ سے منہ کھلا ہوا تھا تاکہ خطرہ ٹلے تو وہ باہر نکل سکے ابھی وہ اپنی سوچوں میں غلطاں تھی کہ۔۔۔

یار۔۔۔! جلدی چلو۔۔۔!کتنی دیر ہھ گئی ھے ۔ایک تو یہ سیمینار بھی ناں۔۔۔!!تم پٹواو گی کسی دن۔۔وہ لڑکی تیزتیز بول رہی تھی۔

پلیز مشال آپی ۔۔۔! غصہ تو نہ کریں آپکو پتہ ہے ناں۔۔۔نہ آتی تو سارہ کتنی ناراض ہوتی۔ دوسری لڑکی کی بینی بینی آواز آئی ۔۔۔اب بیٹھو۔۔! جلدی ۔۔سات بج رہے ھیں اور اسلام آباد پہنچتے بھی کم از کم دو تین گھنٹے لگ جائیں گے اور۔۔۔اگر بھائی کو پتہ لگا تو گئے کام سے۔۔۔! وہ گاڑی میں بیٹھ چکی تھیں اور گاڑی سٹارٹ ہوئی ماہیر نے نکلنے کا ارادہ کیا۔۔ لیکن۔۔ پھر رک گئی راہ فرار اچھی تھی اور وہ تھی بھی لڑکیاں ان سے کوئی خطرہ بھی نہیں وہ مزے سے لیٹی رہی

🌸🌸🌸🌸

اس وقت ہال میں مکمل خاموشی تھی ایک بہت بڑا پروجیکٹ ہاتھ سے نکلا تھا اور اسی ایمرجنسی میں سب ورکرز کو کال کی گئی تھی۔۔اور اب وہ کرسی پر بیٹھا مٹھی بند کیے ٹھوڑی کے نیچے رکھے گہری سوچ میں ڈوبا سب کو باری باری نظروں کے زاویے پر رکے ہوے تھے۔کسی کی جرأت نہ تھی کہ اس شخص کے بولنے سے پہلے کوئی دلیل یا اپنی صفائی دیتا۔۔

مسٹر رفیق۔۔۔۔بھاری آواز سپاٹ اور حد درجہ خشک لب و لہجہ۔۔۔مسٹر رفیق نے ڈہل کر دیکھا۔۔۔

آپ (انگلی سے اشارہ کیا) مسٹر ایاز ۔۔۔! ( اب ان سے قدرے فاصلے پہ بیٹھے ایک اور شخص کی طرف اشارہ کیا ) اس نے بھی گھبرا کر سر اٹھایا۔۔اور مس ماہرہ علی ۔۔۔۔آپ۔۔۔۔وہ بھی ٹھٹھکی ۔۔آپ تینوں کو کمپنی ایک ماہ کےلیے گھر ریسٹ کے لیے بھیج رہی ہے ۔۔۔!لہذا آپ تینوں جا سکتے ھیں۔ایک لمحے میں فیصلہ کرنے والا وہ واپس نہیں پلٹتا تھا۔بس کا ہی سرد لہجہ صرف کمپنی میں نہیںبلکہ پورے بزنس سرکل میں مشہر تھا حد درجہ ضدی اور غصیلا۔۔۔

سر۔۔۔ پلیز سر ۔۔۔ایک بار ۔۔۔بات۔۔۔؟؟مسٹر ایاز اور مس ماہرہ تو اٹھ گۓ تھے لیکن مسٹر رفیق نے تھوڑی ہمت کر کے اپنے حق میں دلیل دینی چاھی جو انہیں بہت مہنگی پڑی۔۔مسٹر رفیق آپ چھ ماہ کے لیے ریسٹ پر جا رہے ھیں۔۔۔you can go now وہ ہی سپاٹ لہجہ ۔۔۔صرف اپنا فیصلہ سنانے والا۔۔سامنے والے کی نہ سننے والا۔۔اور نہ ہی صفائی کا موقع دینے والا۔۔وہ بیسا ہی تھا۔۔

میٹنگ برخبست ہو چکی تھی ویسٹ کوٹ کے بٹن بند کرتے ہوے وہ ہال کے دروازے کی طرف بڑھا۔۔۔ایک شان بے نیازی تھی اس کی چال میں۔۔۔بس کے اٹھتے ہی سب اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ھوے۔گیٹ بواۓ نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا۔اور وہ باہر نکلتا چلا گیا۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

خاندانی رئیس زادہ۔۔۔اور وہ بھی خان زادہ ۔۔! ایک بہت بڑی بزنس امپائرکا اکلوتا مالک. جس چیز کو ہاتھ لگاتا سونا بنا دیتا۔

قسمت عروج پر تھی۔ ہر ایک کا منظورِ نظر۔ کوٸ لڑکی ایسینہ تھی جو اس کی پراسرار شخصیت سے مسحودر نہ ہوٸ ہو ۔ لیکن آج تک اس نے کبھی کسی لڑکی کو اپنے قریب نہ پھٹکنے دیا۔

ساری دنیا کو ایک ہی قطار میں رکھنے والا۔

ماں کا لاڈلا۔ تو باپ کا فرمانبردار۔

پرویز خان ایک ایک واحد ایسی ہستی جن کی کی بات کو وہ ٹالتا نہیں تھا۔ ۔ جو وہ کہہ یتے ابیہان کے لیے وہ پتھر پے لکیر ہو جاتا۔

پرویز خان کا فخر۔

وہ ابہیان پرویز خان ۔ اے پی کے تھا۔

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

زندگی بھی کتنی عجیب ہے۔۔ آج صبح تک کیا تھی۔۔اب کیسی ہے۔۔۔؟؟

پل پل بدلتی اٹھکیلیاں کرتی زندگی۔۔

ماہیر خود پے ہنسی تھی۔ ابھیوہ سوچوں میں گمتھی کہ گاڑی جھٹکے سے رکی۔ تو وہ حقیقت میں واپس لوٹ آٸ اسے سمجھ نہ آٸ گاڑی رکی کوں ہے۔۔؟؟؟

اف اسے کیا ہوا۔۔؟؟ مشال گھبرا گٸ۔

ندا کا بھی یہی حال تھا۔

بیچ راہ میں سننان جگہ پے گاڑ کا خراب ہوجانا۔۔ اندونوں کو فکر۔مند کر گیا۔

مشال آپی۔؟ اب کیا کریں۔۔؟؟ ندا کی گھبراٸ ہوٸ آواز سناٸ دی۔

میں دیکھتی ہوں۔۔ مشال ہمت کرتی گاڑی کا دروازہ کھولتی باہر نکلنے والی تھی۔

پلیز۔۔ مشال آپی باہر مت جاٸیں۔ کہیں کوٸ مسٸلہ نہ ہو جاۓ۔۔؟؟ ندا نے روکا۔

پریشان تو مشال بھی تھی۔ لیکن یونہی اندر بیٹھنے سے مسٸلہ حل تو نہیں ہو سکتا تھا ناں۔۔؟؟ کچھ کرن ہی ہوگا۔۔۔ مشال کہتے ہوۓ گاڑی سے باہر نکلی۔ تھوک نگلتے ادھر ادھر نظر دوڑاٸ۔ پوری سڑک سنسان تھی۔ مشالنے جھر جھری لی۔ اور آگے بڑھ کے گاڑی کا بونٹ اٹھاتے وہ چیک کرنے لگی کہ ایک تیز روشنی آنکھوں سے ٹکراٸ۔

جھٹآنکھوں پے ہاتھ رکھتے اس تیز روشنی سےبچنا چاہا۔ وہ کوٸ باٸیک والا تھا۔ جو اسی طرف آرہا تھا۔

قریب پہنچا تو مشال نے دیکھا وہ ایک نہیں دو تھے۔ انہوں نے باٸیک روک لی۔ مشال ا سارا خون ہی کسی نے جیسے نچوڑ لیا ہو۔ اندر بیٹھی ندا کا بھی یہی حال تھا۔

لگتا ہے صحیح ٹاٸم پہنچے ہیں۔۔ وہ بھی صحیح جگہ پے۔ دونوں نے ہاتھ پے ہاتھ مارا آنکھ ونک کی اور باٸیک سے اترے۔

دیکھو۔۔ آگے نہ بڑھنا۔۔۔؟؟ مشال انگلی سے وارن کرتی خود پیچھے ہٹی۔

جبکہ ردا بے حس و حرکت وہیں بیٹھی سب دیکھتی رہی۔ خاموش آنسوٶں کے ساتھ۔

ان میں سے ایک کی نظر ندا پے جا ٹھہری۔

تو وہ اس کی جانب بڑھا تھا۔ ندا بنا کچھ سچے سمجھے گاڑی کا دروازہ کھولے مشالکی طرف بھاگتی اس کے پیچھے جا چھپی

مشال سر پے ہاتھ مارتی رہ گٸ۔

اسکی عقل پےماتم کیا۔ ڈور کو اندر سے لاک ببی تو کر سکتی تھی۔ بجاۓ مجیرے ساتھ خود کو بھی مشکل میں ڈال لیا۔

کیا بات ہے دونوں چڑیاں ہی ایک ساتھ قید میں آنے کو تیار ہیں۔ مشال کو سمجھ نہ آیا۔

کہ کیسے خود کو اور اپنی بہن کو بچاۓ۔۔؟؟

وہ آگے بڑھتے آرہے تھے۔کہ کہیں سے بہت بڑا پتھر ان میں سے ایک کے سر پر آکر لگا ۔وہ درد سے کراہ کر رہ گیا۔سب نے حیران ہو کر ادھر ادھر دیکھا۔انھیں سمجھ نہ آیا.کے یہ پتھر آیا کہاں سے۔دوسرے لڑکے نے غصیلی نظریں ادھر ادھر گاڑیں۔کہیں کسی کا نام ونشان نہ تھا۔کہ ایک اور پتھر آیا۔اب کی بار وہ دوسرا لڑکا نشانے پر تھا۔اور سیدھا اس کی آنکھ پر لگا۔وہ تڑپا تھا۔ آنکھ پر ہاتھ رکھے۔ وہ ادھر ادھر گھوم گھوم کے دیکھ رہا تھا۔کون ہے؟ سامنے آو۔۔۔۔! وہ غصے سے للکارا۔ جس کے سر پر پتھر لگا تھا۔وہ سنبھل گیا تھا۔اس نے اپنے ساتھی کو تسلی دی۔ اور آ نکھ کے اشارے سے لڑکیوں کی طرف متوجہ کیا۔وہ جو حیران بھی تھیں۔ اور خدا کا شکر ادا کر رہیں تھیں۔ پھر سے ان کی پیش قدمی پر گھبرا گئیں۔اس میں سے ایک نے ہاتھ بڑھا کر مشال کو پکڑنا چاہا۔ لیکن پکڑ نہ سکا۔ کیونکہ اب کے بھاری اینٹ اس کے ہاتھ پر آ کر لگی۔اور شاید کوئ ہڈی وڈی توڑہی گئی۔ اور پھر پتھروں کی برسات ہونی باقی تھی۔وہ دونوں لڑکے بہت سخت گھبرائے۔

دیکھ لوں گا تم دونوں کو میں۔۔۔۔۔۔! وہ دونوں بائیک کی طرف بڑھے۔ گاڈی کا نمبر نوٹ کیا۔ اور یہ جا وہ جا۔

مشال اور ندا نے گہرا سانس خارج کیا۔ ایک دوسرے کو دیکھا۔ انھیں ابھی بھی سمجھ نہ آ رہا تھا۔ کہ کون سی آ ن دیکھی طاقت نے ان کی مدد کی۔ اور ابھی وہ سوچ ہی رہی تھیں۔ کہ ایک لڑکی ہاتھ جھاڑتی ان کے سامنے آئی۔ مشال اور ندا نے اسے سر سے لے کر پاؤں تک دیکھا۔وہ دولہن کے لباس میں تھی۔ان کی آ نکھوں کی حیرت ماہیر سے نہ چھپی رہ سکی۔کیا یار۔۔۔۔! تم دو ہو کے ان لڑکوں سے ڈر گئی ہو؟؟ لگاتی دونوں کو دو چار کی۔اور نانی یاد کروا دینی تھی۔وہ بہت بولڈ نس سے بولی۔کون ۔۔۔۔ہو تم۔۔۔؟ مشال بس یہی بول پائی۔

مشال آ پی۔۔۔۔! چڑ۔۔۔یل۔۔۔ ندا کے دماغ میں،، ناولز اور کہانیاں گھومنے لگیں۔اور فلموں میں بھی تو ایسے ہی سین ہوتے تھے۔

مشال آ پی۔۔۔! پاؤ۔۔ں! پاؤں۔۔۔دیکھیں۔۔! الٹے ہوں گے۔۔!!ندا نے پیچھے سے ہی چھپتے( مشال کے بیک سے)ماہیر کے پاؤں کی طرف اشارہ کیا ماہیر کو کچھ سمجھ نہ آ رہا تھا۔اس نے لہنگا اوپر کر کے اپنے پاؤں چیک کیے۔ اور حیرت سے ان دونوں کو دیکھا۔اور آگے بڑھ کر آئی۔

ایک تو میں نے تم دونوں کی مدد کی۔ بجائے شکریہ ادا کرنے کے۔۔۔مجھے۔۔چڑیل کہہ رہی ہو۔ ماہیر سچ میں برا مان گئ۔

تو۔۔ وہ تم تھی۔۔۔!؟ مشال نے حیرت سے آنکھیں پھیلائیں۔

پر۔۔ ۔تم۔۔۔ یہاں۔۔۔۔ اس ویرانے میں کیا کر رہی ہو۔

مشال ابھی بھی حیرتوں سے باہر نہ آ پا رہی تھی۔

اوہ۔۔۔ بڑی آ پی۔۔۔! کیا سارہ انٹرویو یہی لینا ہے؟ اس ویران جگہ؟ چلیں ۔۔۔۔اسلام آباد پہنچتے ہیں۔۔۔!راستے میں بتاتی ہوں سب!!

ماہیر ان سے کافی فری گپ شپ کرنے لگی تھی۔اور گاڑی کی طرف بڑی۔۔۔۔ا۔۔۔یک منٹ۔۔! تمہیں کیسے پتہ۔۔۔۔ ہم اسلام آباد جارہے ہیں۔

اب کی مشال کی آ نکھوں میں اس کے لیے شک تھا۔

یہ روڈ اسلام آباد ہی جاتی ہے۔۔۔ہے ناں۔۔۔! اب چلیں۔۔!!

پر ۔۔۔گاڑی تو خراب ہو گئی ہے۔ندا کی ڈری ہوئی آواز آ ئی۔ماہیر نے مڑ کر ایک نظر اسے دیکھا۔اور گاڑی کا بونٹ اٹھا کر چیک کرنے لگی۔ چھوٹی آ پی۔۔!پانی کی بوتل ہو گی؟ ماہیرنے وہیں سے آواز لگائی۔ اس کے چھوٹی آ پی کہنے پرندا سپٹٹا کر رہ گئی تھی۔اور گاڑی سے پانی کی بوتل نکال کر خفگی سے اس کی طرف بڑھائی۔ تھوڑی دیر بعد وہ تینوں گاڑی میں بیٹھیں اسلام آباد کی طرف گامزن تھیں۔

تم۔۔۔اب بتاؤ۔۔۔ہو کون؟ مشال نے دھیرے سے بات شروع کی۔

ام۔۔۔میرا نام ماہیر علی شاہ ہے۔اور۔۔ آپ کی گاڑی کی ڈگی میں تھی۔۔۔! ماہیر نے بڑے اطمینان سے بتایا۔ندا نے اسے مڑ کر حیرت سے دیکھا۔ پھر مشال کو۔(جیسے آ نکھوں میں کہ رہی تھی۔کہ ہمیں کیسے پتا نہ لگا)لکین مشال نے چپ رہنے کا اشارہ کیا۔

ہماری گاڑی۔۔میں۔۔۔اپ پکنک منا نے آ ئی تھیں؟ اب ڈرائیونگ کرتے مشال نے طنز کیا۔

نہیں تو۔۔۔! جان بچا کر۔۔۔۔چھپی تھی۔۔۔۔! وہ بیٹھی تو پییچھے تھی۔لیکن اسکے بیٹھنے کے اندازسے لگ رہا تھا وہ بھی ان کے ساتھ ہی بیٹھی ہے۔ ٹھیک ہے۔۔۔ !ٹھیک ہے۔۔! اب یہ بتاؤ! کہاں جانا ہے؟اب اتنی دیر ہو گئی ہے۔ گھر بھی پہنچنا ہے۔مشال نے اسے ٹالا۔وہ اسلام آباد کی حدود میں داخل ہو چکی تھیں۔اب مشال کا اعتماد بحال ہو گیا تھا۔اپنا شہر تھا۔اپنے راستے تھے۔اور منزل قریب تھی۔

بڑی آ پی۔۔!۔فلحال تو منزل کا پتہ نہیں۔۔۔۔! ابھی۔۔۔سوچا بھی نہیں کہاں جانا ہے۔۔۔۔! آ پ۔۔ ایک کام کریں۔ایک رات کے لیےنہ مجھے اپنے گھر پناہ دے دیں۔۔۔۔۔! صبح ہوتے ہی۔۔۔میں کچھ نہ کچھ کر لوں گی۔

ماہیر ساری پلینگ ان کو بتا رہی تھی۔

ار۔۔۔۔رے لڑکی ۔۔۔۔! ہم تمہیں کیسے گھر لےکر جا سکتے ہیں۔گھر والے سو سو سوال کریں گے۔۔۔۔! اوپرسے یہ دولہن والے کپڑے۔۔۔۔۔!! کیوں گھر سے نکلوانا ہے؟ مشال نے گھبرا کر کہا۔

تم۔۔۔کیوں۔۔۔ بھاگی۔۔اپنی شادی سے؟ ندا نے اسے آ ڑے ہاتھوں لینا چاہا۔دلہن کے لباس سے یہی لگ رہا تھا۔کہ وہی دولہن تھی۔چھوٹی آ پی۔۔۔۔ میری شادی زبردستی ہو رہی تھی۔اور حقیقت آ پ جانتی ہیں۔۔۔!اس لیے میرے کیے کوئی رائے مت اخذ کریں۔ ماہیر کو ندا کا انداز نا گزرا۔اس کے نواب پرندا لب کا ٹتی خاموش ہو گئی۔

ایک تو میرے روپ میں خدا نے آ پ دونوں کی مدد کی۔اوپر سے مجھے ہی۔۔۔اپ ایک کام کریں۔ گاڑی یہی روک دیں۔ آ پ دونوں سکو۔۔۔ن سے گھر جائیں۔میں اپنا بندوبست خود کر لوں گی۔ ماہیر نے پر عزم ، لہجے میں کہا۔وہ کہاں کسی کی کوئی کڑوی بات سنے کی عادی تھی۔ہر بات کو ناک سے مکھی کی طرح اڑاتی تھی۔تم۔۔۔تو بورا مان گئ۔۔۔! چلو۔۔۔!ہماراگھر قریب ہی ہے۔۔۔! کچھ کرتے ہیں۔۔۔!مشال کو اس چھوٹی سی لڑکی پر ترس آ گیا۔

چھوٹی تو تھی۔لیکن پوری توپ تھی۔جس طرح اس نےان کی وہ مشال فراموش نہیں کر سکتی تھی۔ گیٹ سے گاڑی اندر گاڑی پارکنگ میں کھڑی کی۔

بس دعا کرو۔۔۔بھائی نہ پہنچے ہوں۔مشال نے ندا سے کہااچھا۔۔۔!سنو۔۔۔! جب تک ہم واپس آ تے ہیں۔تم گاڑی سے نہ اترنا۔۔۔۔! اندر جا کر دیکھ کر پھر۔۔۔تمہیں لینے آ وں گی۔مشال نے اسے سمجایا۔۔۔۔ندا سر پیٹ کر رہ گئی۔

ڈونٹ وری۔۔۔! میں یہیں ویٹ کر لوں گی۔ لیکن۔۔اپ آ نا۔۔۔۔۔! ماہیر نےپیچھے کی سیٹ پر آرام سے ٹکتے ہوئےمشال آ پی۔۔۔!اسکو بتا دیں کہ۔اگر یہ گاڑی سے اتری کسی نے دیکھ لیا۔تو وہ خونخوار کتااس پر چھوڑ دے گا۔ندا چھوٹی آ پی۔۔! تم مجھے ڈرا رہی ہو؟ ماہیر نے خفگی سے چھوٹی آ پی کے کہنے پر ایک بار ندا پھر لب بھینج گئ۔ وہ گاڑی سے اتر گئی۔مشال نے بہ مشکل مسکراہٹ ضبط کی۔ اور کہ کے گئ۔کے گاڑی سے نہ اترنا۔ ماہیر ٹیک لگا کر لیٹ گئی۔گاڑی میں بیٹھے ہی وہ لان کا جائزہ لینے میں سمجھ نہیں آ یا۔ لیکن اتنا اندازہ لگا سکی۔کہ لان اور بہت بڑا۔ کافی دیر بعد انتظار کرنے کے بعد دونوں میں سے کوئی نہ آ ئی۔تو اپنی عادت سے مجبور ہو کر آ ف کر کے چپکے سےباہر آ ئی۔

ایک طرف خوب گھنے درخت تھے۔اور ساتھ ہی سبزاہ زار۔بس اندازے ہی لگا سکی۔دوسری طرف بجلی کی قیمقے لگے تھے۔اور اندر جانے کا راستہ تھا۔وہ گارڈ سے نظر بچاتی ایک طرف سے ہو کر اندر کی جانب بڑھی۔ گھر باہر سے جتنا جوبصورت تھا۔ اندر سے محل ہی تھا۔ خوبصورتی کی اپنی مثال آپ۔۔۔۔! واؤ۔۔۔۔بیوٹی فل۔۔۔۔! بے ساختہ اس کے منھ سے نکلا۔ کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی۔تو وہ ہڑ بڑا گئ۔اور بے دھیانی میں آ گے بڑھی۔ایک دو سائیڈ مڑی۔تو سامنے ایک بند دروازہ نظر آ یا۔جھٹ سے ہینڈل گھمایا۔ددوازہ کھل گیا۔وہ جھٹ سے اندر آ ئی۔۔۔اور گہرا سانس خارج کیا۔اندر تو کوئی نہیں تھا۔لیکن اتنا بڑا کمرہ دیکھ کر ماہیر کی آ نکھیں پھیل گئیں۔ایک طرف جہائزی سائزبہت بڑااور بے انتہا خوبصورت بیڈ تھا۔دوسری سائیڈصوفہ اور میز پڑے ہوئے تھے۔ جدید طرز کا فر نیچر۔۔۔۔! نرم و ملائم قا لین۔اور دیواروں پر خوبصورت paintings۔۔۔۔۔۔!ماہیر تو جیسے کھوسی گئ۔

ماہیر ایک بڑی سی حویلی میں رہتی تھی۔بچپن سے اس نے خود کو حویلی کی چار دیواری میں پایا۔حویلی جہلم کی مشہور حویلی تھی۔(شاہ حویلی)لیکن اس طرح کی خوبصورتی وہاں نہیں تھی۔ اس روم کی سائیڈ پر دو دروازے اور بھی تھے۔ایک دروازے کے ساتھ وارڈروب تھاشاید۔۔۔! ماہیر نے آ گے ہو کرwindow سے باہر دیکھا۔یہ روم اوپری منزل پر تھا۔اتنا اندازہ اسے ہو گیا تھا۔۔۔۔۔پلٹی۔۔۔۔لیکن ساتھ ہی ٹھٹکیwindowکے دوسری سائیڈ کی دیوار سےارے دیوار تو نہیں یہ۔۔۔یہ تو گلاس وال ہے۔ اور باہر کا منظر دیکھ کر ماہیر کی آ نکھیں خیرت سے پھٹ گئی۔ایک بہت بڑا اور پیارا سا سوئمنگ پول۔وہ بھی اوپر منزل پر۔۔۔واہ ۔۔۔۔سائنس کتنی ترقی کر گئ ہے۔ ماہیر نے داد دلی۔لیمپ کی مدھم روشنی میں ہی وہ پورے روم کا جائزہ اچھی طرحلے چکی تھی۔ہر طرح سے پرفیکٹ روم تھا یہ۔!! ماہیر نے اوکے کر دیا۔۔ اب تھکن بھی بہت تھی۔ اور بھوک بھی بہت لگی تھی۔کیا کیا جائے۔ صبح سے کچھ کھایا بھی نہیں تھا۔اب تو پیٹ میں چوہے کرکٹ میچ کھیل رہے تھے۔وہ اٹھی ادھر ادھر نظر دوڑائی۔ بیڈ کا دراز کھولا۔تو اس میں سےBubbelsکا ایک پیکٹ نظر ایا۔ واہ کیا بات ہے؟Bubbels ماہیر کیfavouriteچیز تھی۔اس نے جھٹ سے ریپر اتارا اور تین چار ایک ساتھ منھ میں رکھے۔اور flavour کا مزہ لینے لگی۔واقعی بہت زبردستTaste ہے۔وہ اوٹھ کر دروازے کے پاس آ ئی۔کہ آ ب اس روم سے نکل کر ان دونوں آ پیوں کو ڈوھونڈے۔ابھی وہ دروازے کے قریب ہی تھی۔کہ روم کی طرف کسی کے آ نے کی چاپ سنائی دی۔ماہیر نے ادھر ادھر دیکھا۔اور واش روم کا دروازہ کھال کے اندر گھس گئی۔انے والا روم کے اندر ہی آ یا تھا۔مشال اورنداھا سے اچھی خاصی عزت کروا کر اپنے اپنے روم کی طرف جا چکی تھیں۔ماہیر دونوں کے زہن سے اوجھل ہوگئی تھی۔شکر تھا چچا جان کی فیملی ابھی واپس نہیں آئی تھی۔ورنہ انکی دونوں بیٹیاں حور اور نور ان کے سامنے انسلٹ ساری زندگی وہ نہ بھولتیں۔سونے پے سہاگہ نہ بابا گھر آئےتھے ابھی تک۔اور نہ بھائی ۔دونوں نے بچ جانے پرخدا کا شکر ادا کیا۔

کمرے میں انٹر ہوتے کسی غیر معمولیmovement کااحساس ہوا۔ایک لمے کوٹھٹھکا۔پورے روم پر نظر ڈالی دراز میں سے bubblesکا پیکٹ باہر نکلا ہوا تھا۔اور ریپر بھی وہیں تھے۔وہ سوچنے لگا۔کہ اس کی غیر حاضری میں روم میں کسی کے آنے کی جرات نہیں۔تو۔۔یہ آج اچانک۔۔۔۔!ماتھے پر بل پڑے۔

سلکی بال ماتھے پر پڑےانکھوں میں غصہ اسے اس وقت مکمل اور دلکش بنا رہے تھے۔غصہ اس پر جچتابھی تھا۔سرجھٹک کر وہ وارڑروب کی جانب بڑھا۔ٹاول لیکر وہ باتھ روم کادروازہ کھولا۔بناسامنے دیکھےدروازہ لاک کیا۔یکدم دماغ نے گھنٹی بجائی۔جھٹ سے پلٹااور سامنے ایک لڑکی کھڑی۔شیشے کے آگے۔bubblesمنہ میں ڈالےبار بار پھلا کرغبارہ بنا رہی تھی۔جسے ہی غبارہ پھٹتا اسکی آنکھیں چمک جاتیں۔وہ اتنی مگن تھی۔کہ اسے احساس تک نہ ہوا۔کہ کوئی پیچھے کھڑا اسے گھور رہا ہے۔کون ہو تم؟بھاری مردانی آواز پے ماہیر کا غبارہ پھولا ہی رہ گیا۔دھیرے سے پلٹی۔سامنے ایک شخص کو دیکھ کر اسکی آنکھیں حیرت سےپھیل گئیں۔اب کیا کرے۔سوچتے ہوئے ماہیر نےاس کی آنکھوں میں غصہ اورناگواریت دیکھ لی تھی۔پہلے غبارہ پھٹا۔ساتھ ہی ببل منہ سےگر گیا۔ماہیر پہلی بار زندگی میں سخت کنفیوز ہوئی۔اسے سمجھ نہ آیا کہ اس سچویشن سے کیسے نکلے۔

میں نے پوچھا۔۔۔۔!کون ہو تم؟اب کی بار غرا کرپوچھا گیا۔ابیہان کے لیےمزیدضبط کرنااب برداشت سے باہر ہو گیا تھا۔ٹاول سائیڈ پر رکھ کر وہ دھیرے دھیرےآگے بڑھا۔ماہیر نے دائیں بائیں دیکھا۔اپنے بچاو کے لیے کچھ تلاشا۔لیکن۔۔۔کچھ نظر نہ آیا۔وہ قریب آگیا۔ماہیر نے نظرے ادھر ادھرگھومائیں۔

میں بار بار اپناسوال دہرانے کا عادی نہیں ہوں۔بہتر ہوگا۔سب کچھ سچ سچ بتا دو۔اتنا سرد لہجہ اور غصیلی آنکھیں ماہیر تو سن ہوگئی۔

ٹھیک ہے!مت بولو پولیس خود اگلوا لے گی۔۔۔۔!کہتے ساتھ ہی پلٹاماہیرہوش میں واپس آ ئی۔اور جھٹکے سےاسکے آگے کھڑے ہو کر راستہ آپ۔۔۔!آپ۔۔۔مجھےچور سمجھ رہے ہیں۔جو پولیس کے حوالے کرنےکا بول رہے ہیں؟میں نے۔۔آپ کا کچھ نہیں چرایا۔آپ چیک کر لیں۔ماہیر کا اعتماد واپس لوٹ آیاتھا۔ابیہان اس چھوٹی سی توپ کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔پلٹ کر ببل کی طرف دیکھا ۔جو ماہیر کے منہ سےچھوٹ کر نیچے گرا تھا۔ماہیر نے اس کی نظروں کے تعاقب میں دیکھ جھٹ سے آکے بڑھی۔ببل کو اٹھا کرڈسٹ بین میں ڈالا۔یہ۔۔۔یہ تو۔۔۔۔ایسے ہی۔۔۔۔سامنے پڑی تھیں۔۔۔۔!تو۔۔۔تھوڑی سی چکھ لیں۔ماہیر سے بات نہ بن پائی۔

اس وقت۔۔۔میرے روم میں آپ کیا کر رہی ہیں؟

ابیہیان ابھی بھی سنجیدہ تھا۔اسے سر سے پاؤں تک دیکھ کر وہ اندازہ لگا چکا تھا۔کہ وہ بھاگی ہوئی کوئی دولہن ہے۔

یہ۔۔۔اپ کا روم ہے۔۔۔؟ سریسلی۔۔۔مجھے نہیں تھا پتہ۔۔۔!! میں تو بڑی آپی اور چھوٹی آپی کو ڈھونڈنے آ ئی۔ وہ مجھے نیچے گاڑی پر چھوڑ کر خود اندر آ گیئں۔اب پتا نہیں ۔۔! کدھر ہیں۔۔؟ماہیر نے معصومیت کی انتہا کردی۔

کون آ پی۔۔۔؟ ابیہیان ٹھٹھکا۔

وہ ۔۔۔( نام کیا تھا ان دونوں کا۔۔۔) دماغ پر زور دیا۔

ہاں۔۔! مشال آ پی اور ندا آ پی۔۔۔!یہی نام تھا۔

ماہیر نے خوشی سے بتایا۔ ابیہان نے سختی سے آ نکھیں میجیں۔باہر آؤ۔۔۔۔!یکدم ابیہیان کو جگہ کااحساس ہوا۔اور فوراباہر نکلا۔وہ بھی جھٹ سے اس کے پیچھے بھاگی۔

کچھ کہنے کے لیےہو پلٹ۔کہ وہ جو تیزی سےاسکے پیجھے نکلی تھی۔اسکےچوڑے سہنے سے ٹکرا گئی۔اور ایسا ٹکرائی۔لگا لسی سخت سے ٹکرائی ہو۔ٹکرا کر پیچھے کی طرف گرنے لگی۔کہ جھٹ سے ابیہیان نے بازو سے پکڑ کرگرنے سے بچایا۔ماہیر کاسر چکرا گیا۔ابیہان نے فوراً بازو چھوڑا در پلٹ گیا۔وہ سر سہلاتی ہوئی باہر نکلی۔ابیہان غصے سے ادھر ادھر ٹہلنے لگا۔وہ ننھی سی جان۔۔۔۔کہاں پھنس گئی۔ماہیر یہی سوچنے لگی۔

دیکھیں! آ پ مجھے غلط نہ سمجھیں۔ میں صرف۔۔۔ ایک رات کی مہمان ہوں یہاں۔۔۔۔! صبح ہوتے ہی یہاں سے چلی جاؤں گی۔۔۔۔!!

ماہیر نے اسے تسلی دی۔اس سے زیادہ شاید خود کو دی۔ابیہان نے غصے کی ایک نظر اس میں ڈالی۔اس وقت ابیہان کو رہ رہ کے مشال اور ندا پر غصہ آ رہا تھا۔کہ وہ اتنی بڑی غلطی کیسے کر سکتی ہیں۔کسی بھی انجان لڑکی کو گھر اٹھا کر لے آ ئیں۔وہ بھی دولہن کے روپ میں۔

آ پ ۔۔۔۔چاہئیں بڑی آ پی اور چھوٹی آ پی سے پوچھ سکتے ہیں۔میں۔۔بہت شریف اور معصوم ہوں۔اب کی بار آ نکھوں میں معصومیت لائی۔

جی۔۔۔دیکھ کر لگ رہا ہے۔اپ کتنی۔۔۔شریف۔۔۔ہیں۔۔۔! ابیہان نے اسکے حلیے سے سر سے پاؤں تک دیکھ کر(کتنی) پر زیادہ زور دیا۔

ماہیر نے اپنا حلیہ دیکھا۔اور ابیہان کے قریب آ ئی۔

۔۔۔نہ۔۔۔! میرے حلیے پر نہ جانا۔۔۔!یہ تو۔۔۔مجبوری میں پہنا پڑا۔

۔۔۔ورنہ ۔۔۔میں ۔۔۔اتنے شوخ کلر نہیں پہنتی۔۔۔۔۔۔! ماہیر نے اپنا دفاع کیا۔ابیہان کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔کہ وہ اس لڑکی کو یہاں سے نکالے کیسے۔۔؟صبح کا تھکا ہوا۔ریسٹ کے لیے وہ آ یا۔اوراب آ گے سے یہ آ فت۔۔۔! (اسے یہ آفت ہی لگی)

دیکھیں۔۔!۔۔پلئیز۔۔۔ آپ مجھے شک کی نظروں سے نہ دیکھیں۔آگے میں صبح سے بھوکی ہوں۔ پیٹ میں چوہے دوڑ رہے ہیں۔اسطرح دیکھیں گے تو۔۔۔میں بےہوش ہو جاؤں گی۔یہ ماہیر کی معصومیت کی انتہا تھی۔ ابیہان نے غصے سے لب بھینچے۔اور باہر کی طرف قدم بڑھائے۔

آ۔۔۔۔پ۔۔۔کہاں۔۔۔؟؟وہ بھی پیچھے لپکی۔ لیکن وہ پلٹا ۔اب کی بار ماہیر نہ ٹکرائی۔لیکن بہت قریب پہنچ گئی۔ایک انچ سے بھی کم فاصلے پر تھے دونوں۔ابیہان بہ مشکل خود کو کنڑول کیے ہوئے تھا ۔آج تک کسی لڑکی کو اجازت نہیں تھی۔اس کے قریب بھٹکنے کی بھی۔لڑکیوں سے ہمیشہ ایک فاصلے پر رہ کر بات کیا کرتا تھا۔اور یہ لڑکی بار بار اس کا ضبط آزما رہی تھی۔ماہیر یکدم پیچھے ہٹی۔

دیکھیں۔۔۔! آپ مجھے غلط نہ سمجھیں۔۔۔۔۔میں۔۔آپ کو۔۔۔ کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گی۔ابیہان آگے بڑھ رہا تھا۔اور وہ پیچھے ہوئے جا رہی تھی۔اس کی بات سن کر ابیہان کا مزید پارہ ہائی ہو گیا۔

جھٹکے سے صوفے پر گری۔ابیہان نے دونوں اطراف بازو رکھ کے اس کے فرار کا راستہ روکا۔ دونوں کی نظریں ایک دوسرے سے ملیں۔

تمہیں کیا لگا۔تم۔۔۔ جھٹانک بھر کی لڑکی۔۔ مجھے نقصان پہنچاۓ گی۔۔۔۔؟ابیہان پرویز خان کو۔۔؟ایک ایک لفظ پر زور دے کر۔کہ ماہیر کی سٹی ہی گم ہو گئی۔آج تک اس طرح سخت لہجے میں ایک انسان نے اس سے بات کی تھی۔ اور وہ تھے بابا سائیں۔ماہیر پوری دنیا میں بس ان سے ڈرتی تھی۔آج ایک اور ہستی سامنے ہے۔اگر تمہارے منھ سے ایک لفظ بھی نکلا۔ تو واپس باتھ روم میں بند کر دوں گا۔۔۔۔کبھی تم۔۔؟؟ ابیہان کہ کر سیدھا ہوا۔ماہیر سانس روکے دیکھتی رہی۔کون کہ سکتا تھا۔ کہ یہ وہی ماہیر ہے۔جس نے کچھ گھنٹے پہلےایک لڑکے کو تھپڑ مارا تھا۔ ماہیر صوفے میں دبک کے بیٹھ گئ۔مبادوا واقعی باتھ میں بند نہ کر دے۔ابیہان دروازےکو باہر سے لاک کر کے نیچے آیا۔اس وقت رات کا ایک بج رہا تھا۔کچن کاؤنٹر کے قریب کھڑا ہو گیا۔سوچنے لگا۔ فریج سے پانی کی بوتل نکالی۔پانی پیا۔اور سوچے جا رہا تھا۔کہ آگے کیا کریں۔۔۔۔!!

مشال آ پی اور ندا دونوں میں سے کس کے روم میں جائے؟اور وہ ابھی اس وقت۔۔۔۔! ابیہان کو بہنوں کے روم میں اس وقت جانا مناسب نہ لگ رہا تھا۔وہ دن کے ٹائم بھی کبھی ان کے روم میں نہیں گیا تھا۔آب تو رات کے ایک بج رہا تھا۔یہئ سوچتے وہ وآپس روم میں آیا۔کہ صبح بات کروں گا مشال آپی سے۔۔۔! بس یہ آفت ٹلے کہیں۔۔۔۔! نظر صوفے پر پڑ گئی۔تو وہ وہاں نہیں تھی۔ ابیہان کے ماتھے پر پھر سے بل پڑ گئے۔اب کدھر گئی یہ۔۔۔۔؟خود کلامی سے بولا۔تبھی اس پر نظر پڑی۔وہ باتھ روم سے باہر نکل رہی تھی۔ابیہان کو تو اور کچھ نظر آیا یا نہیں اپنا ڈریس اسے پہنے دیکھ اس کا دماغ ساتویں آسمان پر جا پہنچا۔

تمہاری ۔۔۔اتنی جرآت۔۔۔! تم۔۔۔میرے کپڑے پہنو۔۔۔۔؟؟میری اجازت کے بغیر۔۔۔تم نے میری۔۔۔۔وارڈروب کو ہاتھ کیسے لگایا۔؟؟ جارحانہ تیور دیکھ کر ماہیر جو اتنے لمبے بازو فولڈ کر رہی تھی۔پھر سیدھے ہو جاتے ۔وآئیٹ شرٹ اور بلیک ٹراؤذر جو ایسا لگتا تھا۔کہ کسی بچے نے پہن لئے ہوں۔ابھی یہ کپڑے ہی نہیں سمبھالے جا رہے تھے۔کہ ابیہان کے جار حانہ تیور دیکھ کر ڈر گئی۔فوراسے پہلے اپنا دفاع کیا۔

پلیز ۔۔۔پلیز۔۔۔!غلط نہ سمجھیں۔ لہنگا بہت وزنی تھا۔اور۔۔۔ مجھے گرمی لگ رہی تھی۔اس لیے ۔۔۔۔!!اپنی حالات کے پیشِ نظر ماہیر تھوڑا خود میں ہی سمٹ گئی۔ ابیہان غصے سے چلتا ہوا اسکے پاس آیا۔

اتارو میرے کپڑے۔! ابھی اسی وقت۔۔! غصہ میں اسے ہوش نہ تھا۔کہ کیا بول رہا ہے۔ماہیر نے جھٹ سے دونوں ہاتھ سینے پر باندھ لیے۔

کیا۔۔۔۔ کیا بول رہے ہیں؟خبردار۔۔۔ جو۔۔۔ کوئی ایسی حرکت کی ۔۔۔! میں شور مچا دوں گی۔۔۔آپ ۔۔۔۔؟ماہیر بھی خفگی سے بولی ۔

تتم۔۔۔۔۔؟؟؟ ابیہان نے اسے کلاٸ سے کھینچ کے صوفے پے گرانے والے انداز میں پٹخا۔

اب اگر تم یہاں سے ہلی بھی تو باتھ روم میں نہیں بند کروں گا۔ بلکہ سیدھا کھڑکی سے نیچے پھینک کے کھڑکی بند کروں گا۔

ابیہان کے سرد و سپاٹ انداز میں کہنے پے ماہیر نے منہ ٹیڑھا کر کے اسے دیکھا۔ بڑا آیا کہیں کا رٸیس زادہ۔۔ اکڑ خان۔۔۔ ۔میں تو لحاظ کر رہی ہوں۔۔ بحالتِ مجبوری۔۔۔ کہ کمرہ اس کا ہے۔۔ ورنہ اس وقت نکال دے تو کہاں جاٶں گی۔۔؟؟ اور مجبوری نہ ہوتی تو دیکھتی یہ مجھے اتنی باتیں سناتا ۔۔۔

ماہیر علی شاہ کو۔۔۔!

ماہیر جو ابیہان کے غصہ سے ایک لمحے کو سہم گٸ تھی۔

اب اس کے جا کے بستر پے نیم دراز ہوتے ہی ہمکلامی سے بڑبڑاٸ تھی۔

ابیہان اسے مکمل نظر انداز کرتا اے سی فل سپیڈ پے کرتا کروٹ لے چکا تھا۔

وہ اسے چھٹانک بھر کی لڑکی ہی سمجھ رہا تھا۔

لیکن وہ یہ نہیں جانتا تھا۔ آنے والے وقت میں یہ چھٹانک بھر کی لڑکی اس پے کتنی بھاری پڑنے والی تھی۔

جاری ہے۔

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤