webnovel

chapter#04

میں کب سوئی مجھے نہیں معلوم لیکن اپنے قریب کسی کی آہٹ پاکر میں گھبرا کر اُٹھ بیٹھی۔۔۔کون ہے۔۔۔؟ کمرے میں اندھیرا تھا اس لیے میں فوراً سمجھ بھی نہیں پائی تھی کہ کون ہے۔۔۔ جانے دوپہر سے شام اور شام سے رات کب ہو ئی۔۔۔

ارے بھئی آرام سے میں ہوں۔۔۔ اس طرح گھبرانے کی کیا ضرورت ہے، میرے علاؤہ اور کون ہو سکتا ہے یہاں۔۔۔

جس کی آہٹ سے میں اب نا واقف ہوں پر اسکی آواز کو اب بھی پہچانتی ہوں۔۔۔

سوری میں نے آپکو جگا دیا ۔۔۔

کوئی بات نہیں کافی دیر سو چکی ہوں۔۔۔

بچے آگۓ آواز نہیں آ رہی۔۔۔

نہیں ۔۔۔ لائٹ آن کر دوں۔۔۔

ہممم کردیں ۔۔۔ کیا کہتی جو اندھیرا میرے دل میں اترا ہے اسکو یہ روشنی کم نہیں کرپاتی نا ہی آپکے لہجے میں بھری مَن بھر کی مٹھاس و اپنائیت۔۔۔اس روشنی میں آپکا چہرہ دکھتا ہے جو میں اب دیکھنا بھی نہیں چاہتی ۔۔۔

میں گھر سے نہیں آرہا اسلئے بچوں کو ساتھ نہیں لایا ۔۔۔ صبح میں آپکو ڈسچارج کروانے آ نہیں سکا تھا آپی جا رہی تھی اسلئے میں نہیں آیا ۔۔۔ پھر تھوڑا کام تھا بس جیسے ہی فری ہوا فوراً آگیا ۔۔۔ یہاں آیا تو آپ سو رہی تھیں ۔۔۔

میں نے سوچا آپکو بِنا جگاۓ کچھ دیر آپکے پاس بیٹھ جاؤں۔۔۔کوشش تو بہت کی پھر بھی آپ میری آہٹ سے اُٹھ گئیں ۔۔۔

کوئی بات نہیں میں نے کہا تو ، بہت سو چکی ، جاگنا تو تھا ہی،،، کوئی کب تک سو سکتا ہے۔۔۔ آپ چاۓ پیئں گے تو شازیہ سے کہہ دیں ۔۔۔وہ بنا دے گی۔۔۔ میں ان سے کہہ کر واش روم چلی گئی۔۔۔

میں منہ دھو کر واپس آئی تو وہ کمرے میں نہیں تھے بلکے کچن میں کھڑےخود ہی چاۓ بنا رہے تھے ۔۔۔

یار کامران میرے لیے بھی چاۓ بنانا تمہارے ہاتھ کی چاۓ مجھے پسند بہت ہے ۔۔۔ پسند تو مجھے تم بھی بہت تھے ۔۔۔آپی نے ڈرائنگ روم سے باہر آتے ہوئے کہا ۔۔۔ بلکہ رہنے دو تمہارا کیا بھروسہ تم اُس میں زہر ہی نا ڈال دو کہیں۔۔۔ سوچتی ہوں بہتر تو یہی ہوتا جو کچھ تم ہمارے ساتھ کر چکے ہو بجائے اسکے ہمیں مار ہی ڈالتے۔۔۔

یہ فرمائش آپ اپنی امی سے کیجیے تو زیادہ بہتر ہوگا ۔۔۔(آپی کی بات کا جواب کامران نے ایک ایک لفظ پر بہت زور دے کر کہا )

تم نے پھر امی کو بولا ۔۔۔ تم انتہائی بے غیرت انسان ہو ۔۔۔ تم خود جیسے دودھ کے دھلے ہو اور سارا قصور امی کا ہے نا ۔۔ آپی اب تقریباً کامران سے چیخ چیخ کر لڑ رہی تھی ۔۔۔

مجھے ان دونوں کی آواز آرہی تھی جبکہ میں سُننا ہی نہیں چاہتی تھی۔۔۔ جس موضوع پر یہ دونوں لڑ رہے ہیں مجھے اس پر بات تک کرنا پسند نہیں ۔۔۔ویسے مجھے وحشت ہوتی ہے چیخ و پکار سے۔۔۔ مجھے ڈرا دینے کیلئے تو ایک اونچی آواز بھی کافی ہی ہوتی ہے۔۔۔

ان دونوں کو میں چپ نہیں کروا سکتی تھی ، بہتر تھا میں اپنے کمرے کا دروازہ بند کر لوں ، اور میں نے یہی کیا ۔۔۔

پر مجھے افسوس ہو رہا تھا یہ وہ دو لوگ آپس میں لڑ رہے ہیں کبھی جن کے درمیان بڑا گہرا تعلق تھا گو کے اس تعلق کے ہونے کی وجہ میں تھی ، پر آپی کیلئے کامران مجھ سے بھی زیادہ اہم تھے ،،، شہر میں آگ لگی ہو اور اسے خبر ہو جائے تو اسکی پہلی فکر یہ ہوتی تھی کہ وہ تسلی کر لے کہ کامران محفوظ ہے وہ ٹھیک ہے یا نہیں۔۔۔ میں کبھی نہیں بھول سکتی کے میں باجی کے گھر سے واپس آئی تو آپی لاؤنج میں بیٹھی دس ماہ کے زیان کو سینے سے بھینچے زار و زار رو رہی تھی کامران آپی کے پاس بیٹھے اسے چپ کرا رہے تھے ۔۔۔

میں گھبرا گئ کہ معلوم نہیں کیا ہوا ہے ۔۔۔ اور میں نے پوچھا کیا ہوا ہے۔۔۔ روتے ہوئے بھی اسکا لہجہ چہک رہا تھا۔۔۔ "تمہیں معلوم ہے آج سے زیان میرا بیٹا ہے "۔۔۔ آج سے کیا زیان ہمیشہ سے تمہارا بیٹا ہے ۔۔۔ لیکن ہوا کیا ہے تم رو کیوں رہی ہو امی اور ریاض بھائی کی گھمبیر خاموشی اترے ہوئے چہرے میرے لیے فکر کی بات تھی ۔۔۔

افشاں آج پھوپھی نے مجھے بے اولاد ہونے کا بہت طعنہ دیا ہے میری ان سے بہت لڑائی ہوئی ہے ابھی تو میں یہاں آگئی ہوں لیکن اب میں انہیں ہمارے گھر میں نہیں رہنے دونگی ۔۔۔

واقعی آج امی نے بہت زیادتی کی ہے نوشین کے ساتھ ریاض بھائی نے بھی اسکی تائید کی۔

لیکن اچھا ہی ہوا ۔۔۔ میں روتے ہوئے یہاں آئی اور کامران کو سب بتایا تو کامران نے سوتے ہوئے زیان کو اٹھا کر لا کر میرے گود میں رکھ دیا کہ کون کہتا ہے آپ بے اولاد ہیں یہ رہی آپکی اولاد ہے۔۔۔ کامران کی بات دہراہ کر وہ ایسے خوش ہو رہی تھی جیسے اسے دنیا بھر کی خوشی مل گئ ہو ۔۔۔ غرض یہ دونوں ایک دوسرے کو بلکل دکھی نہیں دیکھ سکتے تھے ایک دوسرے کیلئے کچھ بھی کر سکتے تھے پھر چاہے دوسرا دکھی کیوں نا ہو جائے جیسے اس وقت میں ہو رہی تھی۔۔۔

میں حال کے شور سے پیچھا چھڑانے کیلئے ماضی کے اوراق پلٹ کر اس میں گم ہو جاتی ہوں کے اذیت کااحساس کم ہو جاۓ شاید ۔۔۔۔

وہ دونوں لڑ کر خاموش ہو چکے تھے اور ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے تھے خاموشی ٹوٹی

آپی کے موبائل کے بجنے کی آواز سے ۔۔۔ وہ فون اٹھاتے ہی شروع ہوگئی جی امی۔۔۔

اور میں لفظ "امی" سن کر نئی افتاد کے اندیشے سے خوف ذدہ ہونے لگی ۔۔۔

وہ لنچ کے بعد مجھے راضی کر چکی ہے کہ میں امی سے بات کرلوں ۔۔۔

ایسا نہیں ہے کہ میں امی کا فون نہیں سنتی، پچھلے چند سالوں سے انہوں نے جب بھی مجھ فون کیا میں نے چپ کر کے انکے ایک ایک لفظ کو بغور سُنا اور انکی بات ختم ہونے پر بنا کوئی جواب دیے ہمیشہ بند کر دیا ۔۔۔

بس میں اپنی آواز انکو نہیں سناتی وہ جانتی تھیں میں سن رہی ہوں اسلئے وہ مجھے اپنا حکم سُنا کر چپ ہو جاتیں۔۔۔خیر یہی ہوا آپی اٹھ کر میرے پاس آئی لو امی سے بات کرو

میں کیا بات کرتی فون کامران نے جھپٹ لیا ۔۔۔

نہیں یہ نہیں بات کریں گی فون کا اسپیکر اَن ہوگیا اُدھر سے امی چیخ رہیں تھیں کہ تم ہوتے کون ہو یہ طے کرنے والے کے میری بیٹی مجھ سے بات کرے گی یا نہیں ۔۔۔

او ہو بیٹی ۔۔۔آپکی بیٹی۔۔۔

مجھے بتایا نہیں یہ حادثہ کب اور کیسے ہوا ۔۔۔

یہ آپکی بیٹی ہیں اور آپکو انکی فِکر ستا رہی ہے ۔۔۔

تم یہ سب چھوڑو اپنی فکر کرو ۔۔۔

جہاں کوئی حق بچا نہیں وہاں حق جتلا کیوں رہے ہو۔۔۔ ہمارا کیا تعلق بچا ہے اسے ہم طے کریں گے۔۔۔ تمہارا کوئی تعلق اُس سے باقی ہے کیا؟

امی کے طنز و طعنے سن کر کامران کا غصہ دیکھنے والا تھا وہ امی پر چِلا رہے تھے میرا تعلق آپ سے زیادہ مضبوط ہے میں سب کچھ ٹھیک کرلوں گا بہت جلد

میں چار سال سے یہی سُن رہی ہوں

تو آپ یہ بھی سن لیں جو آپکو چاہیے وہ آپکو بھی نہیں ملے گا۔۔۔

یہ دونوں لوگ آپس میں لڑ رہے ہیں حیرانگی ہے ورنہ ان دونوں نے ایک دوسرے کیلئے کیا نہیں کیا ۔۔۔ ایک انسان کو قبر میں اتار دیا اورایک کو زندہ لاش بنا دیا ۔۔۔

لگتا ہے ان دونوں کا پھر جھگڑا ہوا ہے اور امی کو میری یاد اسی لیے آرہی ہے کے وہ میرے زریعہ اپنے معملات درست کروا سکیں

کیونکہ انکا فون جب بھی میرے پاس آتا ہے اب بس اسی لیے ہی تو آتا ہے جسے میں سن کر انکے حکم کی تعمیل کرنے کی پوری کوشش کرتی ہوں۔۔۔ لیکن میں اس سب سے تنگ آ چکی ہوں، کسی کا کسی سے کوئی بھی تعلق ہو یا نا ہو مجھے کسی کے درمیان بِریج نہیں بنا ہے۔۔۔

دونوں کے جھگڑے کا موٹیو یہ تھا کہ میں کس کی اطاعت کرونگی ۔۔۔

میں نے خود سے کہا افشاں یہ اقتدار کی جنگ ہے کہ مجھ پر کس کی حکمرانی ہوگی اب۔۔۔

لیکن ان دونوں میں سے کوئی بھی جیتے ، جیتنے والے کے ہاتھ اب کچھ نہیں آنے والا ۔۔۔ کیونکہ میں فتح ہو چکی ہوں ۔۔۔ (یہ اور بات ہے کہ فتح کرنے والے کو نا کچھ خبر ہے ناسروکار ) ہاۓ رے میرے فاتح تم اپنی فتح کی ہوئی سلطنت کس جہنم میں چھوڑ کر بے خبر ہو ۔۔۔

میں قہقہے لگانے لگی

(تصویر والے ہیرو کو یاد کر کہ اس طرح کی باتیں میں خود سوچتی اور اپنے کھلے زخموں پر مرہم رکھ کر خود ہی ہنسنے لگتی، اس سے بس اذیت تھوڑی کم ہو جاتی ہے میری)

تم ہنس کیوں رہی ہو۔۔۔

پاگل ہوگئ ہو کیا ۔۔۔

ایسی سیچویشن میں کوئی بھی نارمل رہ سکتا ہے کیا ۔۔۔

ہنسوں نہیں تو اور کیا کروں

یہ دو لگ اس بات پر لڑ رہے ہیں کے ان دونوں میں سے میری فکر کس کو زیادہ ہے۔۔۔

جبکے صحیح معنوں میں ان دونوں میں سے کیا کسی کو میری فکر ہے ۔۔۔؟

ان دونوں میں سے کسی کو یاد ہے کہ میں ہسپتال میں مَر رہی تھی اور آج ہی گھر لوٹی ہوں۔۔

میری آواز نے ان دونوں کی آواز بند کروادی۔۔۔

میں تھک گئ ہوں آپی میں بہت تھک گئ ہوں۔۔۔

انکو کہو یہاں سے چلے جائیں۔۔۔

میں آپی کے سامنے بیٹھے رونے لگی

کامران موبائل آپی کو دے کر گھر سے نکل گئے

وہ میرا ہاتھ تھامے مجھے چُپ کرانے لگی جب کے وہ خود بھی رو رہی تھی

دیکھا آپی میں اسلیئے ہی اب کنارہ کشی میں ہی عافیت سمجھتی ہوں۔۔۔

کیا تمہیں معلوم ہے میں امی سے کیوں بات نہیں کر رہی ۔۔۔ کیا تمہیں یہ معلوم ہے امی مجھ سے کیوں اور کیا بات کرنا چاہتی ہیں۔۔۔

جو مجھے سے وہ مانگ رہی ہیں وہ دینا میرے اختیار میں نہیں ہے ۔۔۔ وہ یہ بات سمجھ ہی نہیں رہیں ۔۔۔انکو لگتا ہے میں رکاوٹ بن گئ ہوں میں چاہوں تو جو وہ چاہتی ہیں وہ ہوسکتا ہے۔۔۔

میں جو کر سکتی تھی وہ میں کر چکی ہوں۔۔۔ اور جو کر سکتی ہوں وہ کر رہی ہوں

وہ پھر بھی میری بات نہیں سمجھ رہیں ۔۔۔ امی کہ کہنے پر میں کامران سے بات کر چکی ہوں جواب امی کی مرضی کا نہیں ملا اسی لیے ان دونوں کے درمیان جھگڑا چل رہا ہے شاید ۔۔۔

اب امی کیا چاہتی ہیں ۔۔۔ وہ میری باتوں سے جو اخذ کرہی تھی وہ تسلیم نہیں کرنا چاہ رہی تھی

افشاں بولو ۔۔۔ اِدھر دیکھو میری طرف

میری آنکھوں میں دیکھ کر اس نے وہ پڑھ لیا جو میرے لیے کہنا مشکل تھا

وہ اپنا سَر پیٹ کر رونے لگی یا اللّٰہ ہم پر رحم فرما ہمیں مزید کسی مشکل میں نا ڈال ۔۔۔

ایسا کچھ ہوگا ہی نہیں ۔۔۔ میں ہونے نہیں دونگی

تم اب کامران سے کوئی بات نہیں کرو گی۔۔۔

مجھ سے کوئی بات نہیں چھپاؤ گی اور امی کو بھی یہ بات نہیں معلوم ہو کے مجھے معلوم ہے ۔۔۔ کچھ ہونے سے پہلے کچھ کرنا ہوگا افشاں۔۔۔

کیا کریں گے ہم ، ہم روک سکتے ہیں ،،، امی کو۔۔

ویسے بھی اگر تقدیر میں لکھا ہے تو کون روک سکتا ہے ۔۔۔

افشاں اگر تقدیر میں بھی لکھا ہے تو اس تقدیر کو پلٹنا ہوگا ۔۔۔

انسان کی طاقت نہیں آپی کے وہ تقدیر کو پلٹ سکے بہتر ہے اللّٰہ پر چھوڑ دو ۔۔۔ میں نے سب اُسی پر چھوڑ دیا ہے۔۔۔

بس کبھی کبھی میرا دل تاب نہیں لا پاتا سہتے سہتے تھکنے لگتا ہے اس لیے تم سے سب کہہ دیا ۔۔۔لیکن تم غصے میں امی کے سامنے کچھ نا کہہ دینا وہ مجھ سے مزید ناراض ہونگی۔۔۔

اس سب سے میری مشکلوں میں صرف اضافہ ہی ہوگا ۔۔۔

تم نے مجھے اسی لیے بلایا تھا یہ سب کچھ بتانے کیلئے ۔۔۔( وہ مجھ سے اپنے کراچی بلاۓ جانے کی وجہ پوچھ رہی تھی )

نہیں ہر گز نہیں ! جو معملہ اللّٰہ پر چھوڑ چکی ہوں اسکے ہی فیصلے کا انتظار کروں گی ہو سکتا ہے کہیں کہیں صبر کا دامن چھوٹنے بھی لگے پھر بھی کوشش کرونگی ڈٹے رہنے کی۔۔۔

تمہیں تو میں نے کسی اور وجہ سے بلایا تھا ۔۔۔

پر شاید اس کام کے ہونے کا بھی ابھی وقت نہیں آیا۔

Continued....