webnovel

تکمیلِ_عشق

Abiha_Chudhary · Thành thị
Không đủ số lượng người đọc
3 Chs

chapter 3

تکمیلِ_عشق (آرمی بیس)

قسط_نمبر3(ابیہان اور ماہیر کے نکاح پے گھر والوں کا ری ایکشن 😉)

منتہا_چوہان

💘💘💘💘💘💘💘💘💘💘💘

اسے نہیں بخشوں گا ابیہان نے مٹھی بند کر کے دیوار پر دے ماری۔ گیٹ Keeper نے اُسے روک لیا تھا ۔ اب وہ اُس سے بحث کر رہی تھی۔ ابیہان نیچے جانے کے لیے آگے بڑھا

# # #

رضا آپ میجر نوفل سے بات کرلیں ۔ اس کیس کے سلسلے میں وہ آپ کو گائیڈ کریں گے ۔ سر راحیل کی بات سن کر فاٸل لیتا اور او کے سر کہتا ۔ میجر نوفل کے روم کی طرف بڑھا۔

مے آئی کم اِن سر ! کیپٹن رضا اجازت لیکر نوفل کے روم میں انٹر ہوا

جی میں آپ سے بعد میں بات کرتا ہوں ۔ نوفل جو فون پر تھا۔ اب فون بند کر کے رضا کی طرف متوجہ ہوا ۔ سر یہ میجر راحیل نے کیس کی فائل دی ہے۔ اور آپ سے ڈسکس کرنے کو کہا ہے ۔ میجر نوفل نے فائل کے اوپر نام پڑھا ۔ تو دماغ کی رگیں تن گئیں ۔ دلنواز خان " آنکھوں میں خون کی شرارے دھکنے لگے ۔ بیتے کل کی۔ یادیں دماغ میں گردش کرنے لگیں سختی سے آنکھیں بند کر کے وا کیں۔ اب وہ بالکل ریلیکس تھا۔

کیپٹن رضا - یہ کیس بہت کمیلیکیٹڈ ہے ۔ اور جان کا بھی بہت بڑا رسک ہے ۔ خطروں کے کھلاڑی تو ہم ہیں... لیکن اس کیس میں واقعی جان کا بہت خطرہ ہے ۔۔۔۔ کیونکہ یہ عام کیسوں سے ہٹ کر ہے ۔ اس میں وڈ، وڈیرے لوگ شامل ہے جو نام کے تو بہت شریف النفس ہیں لیکن کام کے شریف نہیں۔۔ بہت گھنوٶنے کام ہیں ان کے۔ ۔۔ گینگسٹرز ہیں۔

...! اب تک جو کیس ہم نے Solve کیئے الحمد الله ۔۔۔۔ الله نے ہر موڑ پر کامیابی دی ۔ لیکن یہ ان کیسز میں سب سے زیادہ خطرناک کیس ہے۔ ۔ جن میں بڑے بڑے نام شامل ہیں۔ جن پے ہاتھ ڈالنا آسان نہیں۔۔۔ اور ان کو پکڑ کے سزا دینا اتنا ہی مشکل ہے۔

اور۔۔۔۔؟؟ تھوڑا توقف کیا۔ اپنی جگہ سے اٹھا۔

اس کیس میں بہت بڑے بڑے نام جڑے ہیں جن پر ہاتھ ڈالنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا ۔ جن کا بہ بڑا خطرہ ہے۔

تھوڑا گردن ترچھا کر کے اسے دیکھا ۔

ایک بار آگے بڑھے تو پلٹناImpossibl ہوگا !!

سر ! اس وطن کے دشمنوں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں اگر جان بھی چلی جاۓ تو مجھے پرواہ نہیں۔ یہ جان اسی لئے تو ہے۔ اپنے وطن پر

قربان ہو سکے اسکا حق ادا ہو جائے گا۔ ایک عزم سے رضا نے کہا۔

گڈ۔۔ - We need this spirit . میجر نوفل نے سراہا -

لیں ۔ یہ فارم فل کریں۔ اور یونیورسٹی میں اب آپ

ایک سیکرٹ مشن پے ہے۔ ہم جیسے سیکرٹ انٹیلیجنس کے لیئے ۔ باقی ڈیٹیل رات کو فلیٹ میں ڈسکس کر لیں گے۔

میجر نوفل نے مسکراتے ہوۓ کہا۔

کیپٹن رضا، میجر نوفل کی Smile میں ہی کھو گیا ۔ بہت پراسرار شخصیت تھی۔ ہر روپ میں یہ انسان آفت لگتا تھا۔

انتہائی پرکشش ک سامنے والے کو ماتحت بنائیں ۔ میجر نوفل، کیپٹن رضا کے سینٸر تھے۔ دونوں یونیورسٹی کے دوست تھے۔ رضا جونیر جبکہ

نوفل سینٸیر تھا۔ ایج ڈیفرنسں بھی بہت زیادہ نہ تھا۔ کیپٹن رضا چار سال نوفل سے جھوٹا تھا لیکن ان کی دوستی مثالی تھی ۔ بوقت نوفل

نے یونیورسٹی سے پاس آؤٹ کرکے ملٹری جوائن کرلی ۔ لیکن رضا کی پڑھاٸ کافی لیٹ مکمل ہوئی جس وجہ سے وہ کیپٹن تھا اور نوفل کے

انڈر میں تھا۔ اور بہت خوش تھا۔ یہاں ایبٹ آباد میں وہ اور رضا ایک ہی فلیٹ میں رہتے

💘💘💘💘💘💘💘�

نوفل کے نمبر پے ندا کی کال آرہی تھی۔ نمبر دیکھتا وہ مسکرا اٹھا۔

میں آپ سے بعد میں بات کرتا ہوں ۔۔ رضا۔۔ یو مے گو ناٶ۔۔

رضا مسکراتا ہوا باہر نکلا۔

کیسے ہیں۔ نوفل بھاٸ۔۔؟؟

ندا کی چکہتی آواز کانوں میں پڑی۔

الحَمْدُ ِلله۔۔۔ ! آپ سناٸیں۔۔ ؟۔ کیسے حالات ہیں۔۔؟ نوفل مکمل اس کی طرف متوجہ ہوا۔

حالات تو بڑے خراب ہیں۔۔

پاس بیٹھی مشال کو دیکھا جو اسے ہی گھور رہی تھی۔

ہمممم۔۔۔۔؟؟ وہ سمجھ گیا تھا۔

میری کلاس کا ٹاٸم ہو رہا ہے۔ میں چلی۔۔ آپ۔۔ اپنی ان سے بات کریں۔ باٸ۔

ندا مشال کو موباٸل تھما کے خود نکل گٸ۔

مشال نے دھڑتے دل سے موباٸل کان سے لگایا۔

ہیلو۔۔؟ بمشکل حلق سے آواز نکلی۔

کیسی ہیں۔۔؟؟ گھمبیر لہجے میں پوچھا گیا۔

آپ بزی تو نہیں تھے ؟ ندا نے آپ کو کال کر کے تنگ تو نہیں کیا۔۔۔؟

نہیں۔۔ تو۔۔۔ آپ کیسی ہیں؟ نوفل جانتا تھا۔ وہ گھبرا رہی ہوگی ۔ اس لئے خود ہی باتوں کا آغاز کیا۔

جی ٹھیک ہوں۔۔ مشال کو سمجھ نہ آرہا تھا کہ کیا کہے ۔۔ دل تھا کہ دھڑک دھڑک باہر آ رہا تھا ۔ مشال -- ! نوفل نے اتنے جذب کے عالم میں کہا ۔ کہ مشال کو لگا۔ اس کا دل باہر آجائے گا۔ نجانے کیا کہنے والا تھا۔

آپ --- ٹھیک ہیں ناں ؟ نوفل اسکی خاموشی سے پریشان ہو گیا۔

جی جی ٹھیک ہوں - ! وہ بس ایسے ہی ۔۔۔؟؟ مشال کنفیوز ہو رہی تھی اور نوفل کی مسکراہٹ گہری ہو رہی تھی۔

پڑھائی کیسی جا رہی ہے آپ کی ؟ نوفل نے اسے ریلسکس کرنا چاہا۔

جی ! اچھی جا رہی ہے ۔ مختصر جوابات دیئے جا رہی تھی وہ

مکمل ۔۔۔- کب ہوگی ؟ نوفل اب زرا اپنی جون میں واپس آیا ۔

بس دو ماہ میں کورس Complete ہو جائے گا۔ اب مشال بڑے اعتماد سے جواب دینے لگی

ام۔۔۔۔ ! اور آگے کیا ارادے ہیں، نوفل نے تنگ کیا۔ آگے۔۔۔۔؟؟؟ ابھی سوچا نہیں !! مشال کو اسکی بات کی سمجھ نہ آئی ۔

اگر نہیں سوچا تو میں مشورہ دے سکتا ہوں ؟ مسکراہٹ ابھی بھی گہری تھی۔

جی - جی۔ بالکل بولیں۔ مشال ہمہ تن گوش ہوئی۔

رخصتی کی تیاری کرلیں ۔ کہنے کے ساتھ ہی ایک دم چپ ہوگیا۔

جی ؟ مثال حیرت سے بولی کان کی لو تک گرم ہو گئیں۔

دل عجیب لہہ پر دھڑکنے لگا۔ اتنے سیدھے سادے الفاظ میں بول دیا ۔

اس جی کو میں ہاں سمجھوں ؟ مسز مشلل نوفل شاہ۔۔۔

اب وہ مکمل اس پے حاوی ہوتا اس پے لفظوں کا سحر پھونک رہا تھا۔

اسکی سانسیں اتھل پتھل ہونے لگیں تھیں۔

جو نوفل باآسانی سُن سکتا تھا ۔ آنکھیں بند کئے وہ مشال کو خود کے قریب محسوس کر رہا تھا ۔ نکاح کے بعد وہ لڑکی نوفل کو دل و جان

عزیز ہوگئی تھی۔ لفظوں سے اظہار کبھی نہ کیا ۔ لیکن وہ دل پر قابض ہوگئی تھی۔ یہ وہ اچھی طرح جانتا تھا۔

رکھتی ہوں . کلاس کا ٹائم ہو گیا ہے . ! مشال سے کوئی بات نہ بن پائی اور خدا حافظ کہتے فون بند کر کے لمبا سانس خارج کیا ۔ اور پیاری سی مسکراہٹ اُس پیاری سی لڑکی کے چہرے پر

بہت بھلی لگ رہی تھی ۔ دوسری طرف نوفل کھل کر مسکرایا ۔

مثال کا شرمانا ، نوفل کے دل پر اثر کرتا تھا ۔

دل پر اثر کرتا تھا ۔ اسکا چھوٸی موٸ جیسا

انداز نوفل کو اُس کے قریب لے جاتا تھا۔ ایک بار پھر بیل ہوئی

مسکراہٹ کی جگہ سنجیدگی نے لےلی۔

لیکن اس بار نمبر دیکھ کر نوفل کے چہرے پر یکدم کرختگی چھا گٸ۔ اور دانت پیسنے لگے ۔ جھٹ سے فون اٹھایا۔ اور کان سے لگایا۔

دوسری طرف والے شخص کی باتیں نوفل کے غصے کو بہت ہوا دے رہی تھیں

اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ سامنے والے شخص کو ہمیشہ کے لیئے

چب کروا دے۔ کال بند ہو چکی تھی لیکن نوفل کا غصہ تھا کہ کم نہیں ہو رہاتھا ۔ موبائیل کو ٹیبل پر پخا۔ ۔ اور دماغ لڑانے لگا

💌💌💌💌💌💌💌💌💌💌💌💌

واقعی! بہت بہت انجوائے کیا۔۔۔ مزہ آگیا۔ وہ آج ہی واپس لوٹے تھے۔

حور اور نور۔۔۔ دونوں چہکتی ہوئی

گھر داخل ہوئیں۔ خود مسز فروا اور مسٹر شاہ ویر بھی ساتھ تھے

سبھی مطمین ڈرائینگ روم میں داخل ہوئے۔ مسٹر پرویز اور مسز ثروت وہیں تھے ۔ وہیں ملنے ملانے لگے۔ سیڑھیوں سے

اتر تے ابیہاں پر نظر پڑی ۔ اور وہ جو نیچے اتر رہا تھا وہیں۔

سیڑھیوں پر جم گیا ۔ اور ماہیر جو مسسز ثروت کے پیچھے ہی چپکے۔

کھڑی تھی ۔ دھیرے سے سگگامنے آگئی

شرمائی لجاٸ سی کہ چھوٹی سی پیاری سی لڑکی مسز فروا کی سب سے

پہلے نظر پڑی ۔ مسکرا کر آگے بڑھیں۔

ارے بھی یہ پیاری سی گڑیا کون ہے ؟ مسز فروا کے لہجے میں پیار تھا۔

سبھی کی نظریں اس بار اس طرف اُٹھیں۔

یہ ماہیر ہے۔۔۔

مسٹر پرویز نے لمبا سانس خارج کیا ۔

مزید گویا ہوئے میرے مرحوم دوست کی بیٹی ! آج ہی اسے لے کے آۓ ہیں گھر۔۔۔ اس کے والد کی ڈیتھ ہوگٸ تھی اچانک۔۔ تو۔۔ ۔

کوئی اپنا نہیں تھا۔ اس لیئے اپنے ساتھ گھر لے آۓ ۔ پرویز صاحب نے بات بناٸ۔

مسز ثروت اور مسٹر پرویز خان نے ابیہان اور ماہیر کو لے کر کہانی بنائی تھی۔

مسز فروا نے اسے آگے بڑھ کے گلے سے لگایا۔

مسز ثروت نے پریوز صاحب کی بتاٸ ہوٸ باتپے سر اثبات یں ہایا تھا۔ اور اشارہ کیا کہ ان سب کو پوری بات بتائیں۔

آپ بہت پیاری ہو بیٹا۔ مسز فروا نے مسکرا کر کہا۔

مسٹر شاہ ویز نے بھی ماہیر کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ ابیہاں بھی نیچے کی جانب بڑھ آیا۔ اور یہ میلو ڈرامہ دیکھنےبلگا جس کا کچھ ہی دیر میں ڈراپ سین ہونے والا تھا۔

ہاں میرے بھائی ! حالات ایسے ہو گئے تھے۔ نکاح کرنا پڑا۔

نکاح۔۔۔؟؟ ابھی وہ سب سے ملتا مسٹر پرویز نے بم پھوڑا

ہاں۔۔ یہاں گھر لانے سے پہلے ماہیر اور ابیہان کا نکاح کروا دیا گیا ہے۔

اور اب ماہیر اس گھر کی بہو ہے ۔

مسٹر شاہ ویز صاحب جو آگے بڑھ کر ابیہان کو گلے لگانے والے تھے

بھائی کی بات پھر پر وہ وہییں ٹھٹکے - اور پلئے ۔پتھر کے ہو گئے۔

جھٹکے تو مسز فروا اور نور کو بھی لگے تھے ۔ جبکہ حور کے چہرے پر تو ناگواری صاف دکھ رہی تھی ۔

یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں بھائی صاحب ۔ شاہ ویز صاحب حیران ہوئے۔

مسٹر پرویز نے بھائی کے قریب جاکر ان کے کاندھے پر ہاتھ رکھا۔

ان کا سر جھک گیا ۔ دو بیٹیاں تھیں ان کی حور اور نور -

جن کے

لیے انھیں ابیہان دل و جان سے پسند تھا۔ اور فروا نے بھی تو کتنا

زور دیا تھا۔ کہ نور یا حور کا نکاح ہو جاۓ گا۔۔ ابیہان سے ۔۔ اور دل مطمین تھا لیکن یہاں تو سب اُلٹ ہو گیا تھا

حور منہ پھیر کر وہاں سے چلی گئی۔ نور بھی پیچھے بھاگی - فروا نے اپنی

آنکھ میں آیا آنسو مشکل چھپایا ۔ بڑھ کر ماہیر کے سر پر ہاتھ پھیرا -

اور وہ بھی وہاں سے چلی گئیں ۔ شاہ ویز صاحب نے ابیہان کے

کاندھے پر تھپکی دی ۔ ایک شکوہ کناں نظر پرویز بھائی پر ڈالی اور اندر بڑھ گئے شاید . اوہ براا مان گئے ۔ ثروت بیگم نے پرویز صاحب کے کاندھے پر ہاتھ کھا ۔ تو وہ گہری سانس لے کر رہ گئے۔ ابیہان ایک - پراٸ نظر ماں باپ پر ڈالی۔ اور ایک زہر خند نظر ماہیر پر ڈلتا باہر کی طرف بڑھ گیا ۔ جبکہ ماہر سوچے چلی جا رہی تھی کہ آخر یہ سب اتنی جلدی کیسے ہو گیا ؟؟ اس جلاد کے حوالے مجھ جیسی نازک پری کو حوالے کرتے ایک بار بھی انکل نے نہ سوچا ! ماہیر برا منہ بناتی وہیں کھڑی رہی۔ اُسے رہ رہ کر بی جان کی یاد آرہی تھی۔ ایک نکاح سے بچا کر وہاں سے نکالا۔ اور یہاں پھر سے نکاح کے بندھن میں بندھ گئی ۔ جب نصیبوں میں ہی نکاح کی قید تھی۔ تو ماہیر تو جہاں بھی چلی جا نکاح تیرے پیچھے پیچھے ہی تھا۔ ماہیر کا دماغ عجیب کی باتیں سوچے جا رہا تھا۔ اس بات سے انجان - کہ آنے والے وقت میں اس پیاری سی چھوٹی سی لڑکی کے لئے کتنے کتنی مشکلات آنے والی تھیں۔

💌💌💌💌💌💌💌💌💌💌💌

حور روم میں آتے ہی بدحواس سی ہو گئی تھی۔ جوتے اتار کے دور پھینکے۔ موباٸل بیڈ پرا چھالا اور بیڈ پر بیٹھے ہی آنسوؤں پر ضبط کرتے بھی آنسو بہانے لگی ۔ مسز فروا اور نور دونوں ہی آگے پیچھے روم میں آئیں . حور میری بچی - مسسز فروا تڑپ کر اُس کے پاس جا بیٹھیں۔

ما ما- کیوں ؟ کیوں کیا۔ تایا ابو نے ایسا ؟؟ پھوٹ پھوٹ کر ماں کے گلے لگ کے وہ روئے جارہی تھی۔ مما ! آپ جانتی ہیں ناں ... ! آپ نے کہا تھا کہ آپ کریں گی بات۔۔۔۔! کیوں ہو گیا یہ سب ؟؟ وہ خود کو سمنھال نہیں پار رہی تھی۔ ایہان کو کھونے کا احساس اُسے اندر ہی اندر ماریانا

بیٹا میری جان بس صبر کرو. اسی میں خدا کی بہتری ہوگی ۔ ٹوٹے

دل سے بیٹی کے دل کو سنبھالنا چاہا ۔ جو اور بکھر رہی تھی ۔

نہیں مما ! یہ اتنا آسان نہیں ہے۔ ابیہان میری محبت ہے !!

حور تڑپ کر بولی وہ ابھی بھی Accept نہیں کر پا رہی تھی

بیٹا ! یہ بات اب یہیں ختم کر دو۔ وہ اب کسی اور کا ہو گیا ہے

اور یہ بات اس چار دیواری سے باہر نہ نکلے ۔ مسز فرو اس پے برہم ہوئیںم

مما یہ ۔۔۔۔ - آپ کیا کہہ رہی ہیں ، آپ سب جانتی ہیں اس کے باوجود ؟

حور نے تڑپ کے ماں کو دیکھا ۔ اور اُٹھ کے دور جا کھڑی ہوئی ۔

ہاں جانتی ہوں۔ اور میں ہی کہہ رہی ہوں کہ سنبھل جاؤ۔ لڑکی

کے لئے اگر سب سے بڑھ کر دیکھ ہونا چاہئے تو وہ اس کی عزت نفس ہے ۔ !!

اور میں ہر گز نہیں چاہوں گی ۔ کہ اس محبت کے لیے تم اپنی عزت نفس و

کھو

بہت رسان اور بھرے ہوئے لہجے میں سمجھایا ۔ اور اس کے پاس آئیں۔

مما: - یہ - آسان نہیں اُسے کسی اور کے ساتھ دیکھنا ؟؟

بیٹا شروع میں - واقعی مشکل ہوگا ۔ دھر

دھیرے دھیرے سب ٹھیک ہو

جائے گا ۔ مسنر فروا نے اُسے پھر سے گلے لگا لیا۔ اور نور خود آنسو صاف کرتی باہر آ گٸ۔

بہن کی تکلیف اُسے بھی درد دے رہی تھی لیکن وہ بے بس

تھی۔ سیڑھیوں پے کھڑے وہ نیچے دیکھ رہی تھی۔ مشال آپی اور ندا بھی

اندر داخل ہوئیں تھیں۔ سلام دعا کے بعد ندا کی نظر نور پر پڑی تو

بھاگتی ہوٸ اسکے پاس آئی ۔ اور گلے ملی.

پیاری-- کتنانا انتظار کروایا ۔ کل آنا تھا ۔ پھر صبح اور اب دیکھو کب آرہی ہو۔۔۔؟؟

دن بھی ڈھل گیا ۔ ندا نے وہیں گلے شکوے شروع کردیئے۔ نور مسکراتی نیچے

آگئی ۔ اور مشال سے ملنے لگی ۔

وہ تو ہے ۔ آتے ہوئے دل ہی نہیں کر رہا تھا۔ سچ میں بہت پیاری

جگہ ہے وہ دونوں اسے بہت عزیز تھیں۔

چلو - لڑکیو آجاٶ۔۔جلدی سے فریش ہو کے۔۔۔۔ میں کھانا لگا دوں ۔ مسز ثروت نے انہیں پیار سے کہا۔

اوہ مما چار بج رہے ہیں۔ ۔ کھانا نہیں کھانا ۔ آپ چائے کے ساتھ کچھ

لوازمات تیار کروائیں ۔ ندا چہکی ۔ وہ گھر بھر میں سب سے چھوٹی اور لاڈلی تھی۔

مسر ثروت مسکرا ہیں مشال اور ندا کے روم میں جانے کے بعد نور بھی اپنے

روم میں آگئی۔ رہ رہ کر اُسے حور کی تکلیف ستا رہی تھی - *

*💘💘💘💘💘💘💘

نکاح۔۔۔! ایسے اتنی جلدی کیسے؟ اور بھائی مان

گۓ ؟ مشال اور ندا کو بھی سزر ثروت نے وہی کہانی سنائی جبکہ

دونوں ہی اپنی جگہ ساکت تھیں ۔ حور کی ایہان کے لیے فیلنگز۔

وہ بھی دونوں واقف تھیں ۔

: بس بیٹا جو نصیبوں میں لکھا ہوتا ہے۔ وہی ہوتا ہے تم دونوں چینج کرلو۔۔۔

سب ایک ساتھ چاۓ پیتے ہیں۔ پھر تم دونوں کو آپ کی پیاری

سی بھابھی سے ملوا ہیں گے ۔ مثال اور ندا نے محسوس کیا ۔ کہ ثروت

، بیگم اپنی بہو کے لئیے بڑی محبت سے بات کر رہی تھیں۔ ۔ جیسے ہی وہ باہر نکلیں۔

جھٹ سے دروازہ کھول ماہیر اندر داخل ہوئی ۔ اور وہ دونوں

اسے دیکھ سکتے میں آگئیں۔

تم ۔۔۔ تم یہاں کیسے آٸ ؟ اور

اور تم ابھی تک نہیں گٸ نہیں۔۔؟ ندا فٹ سے بولی۔

آپ۔۔ رہنے دیں۔۔ بات مت کریں مجھ سے چھوٹی آپی آپ دونوں نے مجھے چیٹ کیا ہے ۔ !! مجھے گاڑی میں چھوڑ آپ دونوں مجھے بھول گئیں۔ بھلا ایسا بھی کوئی کرتا ہے ؟

ما پیر کے لہجے میں خفگی تھی۔ پر تم اتنی آسانی سے ہمارے روم میں کیسے آگئی ؟ یہ مشیال اور ندا کا مشترکہ اسٹڈی روم تھا ۔ ۔ ضرورت کی تمام اشیاء رکھیں تھیں ۔ بس سونے کے لیئے اپنے اپنے روم میں جاتی تھیں۔ ۔ زیادہ وقت دونوں کا اسی روم میں گزرتا۔

اُف ! ایک تو آپ دونوں مجھ سے سوری کرنے کی بجائے سوال ۔ وجواب شروع کر دیئے ۔ آپ دونوں کی وجہ سے مجھے اس جلاد کے روم میں ساری رات گزارنی پڑی ۔ اور پھر وہ انکل !! انہوں نے اسی جلاد سے۔ میرا - مجھے معصوم کا نکاح کروا کر مجھے ہمیشہ کے لیئے قید کر دیا ۔۔

ما ہر اس نے اپنی آپ بیتی دُکھی اور غصے میں سنا رہی تھی ۔

واٹ ۔۔۔۔۔؟؟؟ تم تم کس کس جلاد کی بات کر رہی ہو ؟ مثال کو خطرے کی گھنٹی سُنائی دی ۔ ندا کا دل بھی زور زور سے دھڑکا ۔

وہی۔۔۔ نام۔۔۔۔ ماہر سوچنے لگی بییہاں ہاں یہی نام ہے اور یہ سب صرف آپ کی وجہ سے واہ ہے۔ اور آپ مجھ پے غصہ ہو ری۔ ہیں۔۔۔

منہ سنبھال کر بات کرو۔ وہ ہمارے بھائی ہیں۔ اور ہمیں بہت عزیز ہیں۔

اہ۔۔۔ میں ڈر گئی ۔۔ ! ماہیر نے ندا کے غصے کی پروا کئے بغیر ڈرنے کی ایکٹنگ کی۔

ندا محض اسے کی ایکیٹنگ دکھتی پیچ وتاب کھا کر رہ گئی - !

الو بنا دیا۔ یہ سب آپ دونوں کی وجہ سے ہوا ۔ اچھا نہیں ۔۔کیا۔۔ آپ دونوں نے !

نکاح کر چکی اوہ گاڈ اب کیا ہوگا ؟ بھائی سے۔۔۔؟؟

مشال سر پکڑ کر بیٹھ گئی ۔ مشال تھی تو ابیہان سے چھوٹی۔۔۔ لیکن مثال اُسے بھائی ہی کہا کرتی تھی۔ نام سے نہیں بلاتی تھی جب کبھی زیادہ لاڈ آتا تو ابھی بھائی بول دیتی۔ اب حقیقتاً اُسے ابیہان کے لیے ڈر بھی لگ رہا تھا۔ اور برا بھی۔ ان کی غلطی کی سزا ابیہان کو ملی۔

دیکھو ! اپیوں - ما ہیر نے دونوں کو ایک ساتھ مخاطب کیا۔ وہ دونوں چونکیں۔

میں اب یہاں نہیں ٹکنے والی کل سے اب تک جو ہوا. بس بہت ہے ! اب مجھے یہاں سے نکلتا ہے ا اور آپ دونوں میری مدد کرو گی ۔ ماہیر نے دونوں کی طرف باری باری اشارہ کر کے اعتماد سے کہا۔ دوسری طرف ندا اور مثال ایک دوسرے کا منہ دیکھتی رہ گئیں کتنی ڈھٹائی سے وہ اپنا پلان بنا رہی تھی۔ اُسے یہ تک سمجھ نہیں تھی ۔ کہ وہ اب ہمیشہ کے لیے اس گھر کی بہو ہے۔ اور بھاگنے کی پلاننگ کر رہی تھی۔

مشال ایک عزم سے اُٹھی۔ اور اس گڑیا نما توپ کے پاس آئی . ماہیر what ever جو بھی تمہارا نام ہے ۔ ایک بات اچھے سن لو : جو ہوا ۔ بہت غلط ہوا۔ بابا اور مما کو بھائی سے تمہار ا نکاح ہر گز نہیں کروانا چاہیئے تھا۔ لیکن اس سب کی وجہ -- ہم ہیں۔ غلطی ہماری ہے ! اور سزا بھائی کو۔۔۔۔ نہیں میں بابا سے بات کرتی ہوں. مشال بہت سوچ رہی تھی۔ ندا اسکی بات پر لرز گٸ۔

کیا کہ رہی ہیں مشال آپی -- ا بابا کو کیوں بتائیں گی ؟ اور اب تو نکاح بھی ہو گیا ہے ۔ اب بتانے کا کیا فائدہ ؟ ندا ڈر گئی تھی۔

نہ تو نکاح تو - ختم بھی کیا جا سکتا ہے اس میں کونسی بڑی بات ہے ۔ ماہیر کی بات پر مشال حیرت سے اُسے دیکھنے لگی ۔ ماہیر نے

منہ بنا کر کندھے اچکائے۔

تم تم پاگل ہو ؟ نکاح ختم نہیں ہو سکتا۔ نکاح کے بعد علیحدگی طلاق

کی صورت ہوتی ہے۔ اور ہمارے خاندان میں طلاق کا رواج نہیں !

مشال نے تھوڑا سختی سے کہا۔ لیکن ماہیر کہاں سمجھنے والی تھی۔

تو ٹھیک ہے ۔ نہ ختم کریں۔ لیکن ایک بات طے ہے مجھے ۔۔یہاں

سے نکلنا ہے ! آج ہی ! آپ دونوں مدد کریں کی تو ٹھیک نہیں۔

مجھے کوئی روک نہیں سکتا۔ ماہیر ائل لہجے میں بولی۔

یہ ابھی - ابیہان بھائی کو جانتی نہیں ۔ اس لئے بول رہی ہے۔

ندا نے اسکا مذاق اُڑایا۔ ماہیر کو تو تپ ہی چڑ گئی۔

تمہارے ابیہان بھائی کو بھی دیکھ لوں گی ۔ بڑی کوئی توپ چیز ہیں۔

مجھے بھی کوئی کم نہ سمجھنا ۔ ماہیر نڈر لہجے میں بولتی باہر نکل گئی۔

یہ کیا بیٹھے بٹھائے مصیبت گلے پڑ گئی ہے ۔ مشال سر پکڑ کر بیٹھ گئی ۔

ندا بھی بے بسی سے وہیں بیٹھتی۔

اب کیا ہو گا مشال آپی -- ؟ نہ ہی ہم اس کی مدد کرتے۔ یہ ہی یہ یہاں

آتی۔ اور نہ ہی یہ سب ہوتا - ندا کو رہ رہ کر خود پر غصہ آ رہا تھا۔

ندا ! جو ہونا تھا ہو گیا۔ خدا کو یہی منظور تھا۔ تو تم اور میں کیا کر سکتے ہیں؟؟

لیکن ایک بات تو ہے ۔ ہمیں ابیہان بھائی

کو ساری سچائی بتائی ہوگی۔ اور -- معافی بھی مانگنی ہوگی۔ آخری.

بات کہنے مشال کی آواز دھیمی ہوگئی تھی ۔

💌💌💌💌💌💌💌💌💌💌💌

جاری ہے۔ اپنا اچھا سا رسپونس شو کریں۔