webnovel

’اب اس ملک میں کوئی بنگالی رہے گا نہ پنجابی، سندھی رہے گا نہ پٹھان، ن

’اب اس ملک میں کوئی بنگالی رہے گا نہ پنجابی، سندھی رہے گا نہ پٹھان، نہ بلوچ، نہ بہاولپوری : ’علاقائیت کے خاتمے‘ کے نام پر کیا گیا فیصلہ جو آج بھی پاکستان کو پریشان کر رہا ہے ’اب اس ملک میں کوئی بنگالی رہے گا نہ پنجابی، سندھی رہے گا نہ پٹھان، نہ بلوچ، نہ بہاولپوری اور خیر پوری اگر کوئی رہے تو وہ ہو گا پاکستانی اور صرف پاکستانی۔‘ پاکستان کی قومی اسمبلی میں اس روز چہل پہل معمول سے زیادہ تھی، کسی خاص دن کی طرح، پھر یہ دن ایک یادگار کیفیت اختیار کر گیا جب قائد ایوان محمد علی بوگرا اپنے خصوصی پروٹوکول کے ساتھ ایوان میں داخل ہوئے۔ سپیکر قومی اسمبلی نے ایوان کی کارروائی شروع کی اور قائد ایوان کو خطاب کی دعوت دی۔ اس کے بعد ایوان میں وزیر اعظم محمد علی بوگرا کی جانی پہچانی آواز گونجی جس پر ان کا بنگالی لہجہ غالب تھا۔ اپنے پرجوش خطاب میں انھوں نے پاکستان کے مختلف صوبوں کی علاقائی شناختوں کے خاتمے کا اعلان کر کے صرف ایک پاکستانی قومیت کے وجود اور اس کے پھلنے پھولنے کا اعلان کیا اور کہا کہ یہ تمام شناختیں آج سے ختم ہوئیں، آج سے ہماری ایک ہی شناخت ہے اور وہ ہے، پاکستان۔ اس سفر کی ابتدا 22 نومبر 1954 کو ہوئی تھی جب وزیر اعظم پاکستان محمد علی بوگرا نے گورنر جنرل غلام محمد کی ایما پر ایک مسودہ قانون کی تیاری کا اعلان کیا جو ایک ایسے دور کی تمہید ثابت ہوا جسے آگے چل کر ایک بڑے بحران کا نکتہ آغاز بننا تھا۔ اس اعلان کے ٹھیک دس مہینے کے بعد اسی قومی اسمبلی نے بل کی صورت میں پیش کیے گئے اس قانونی مسودہ کی منظوری دی جس کے تحت مغربی پاکستان کے تمام صوبوں اور علاقوں کو ایک ایک صوبے میں ضم کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور تجویز کیا گیا کہ باہم ضم کیے گئے ان صوبوں اور علاقوں کو صوبہ مغربی پاکستان کا نام دیا جائے گا۔ اس بل کی منظوری کے ٹھیک دو ہفتے کے بعد یعنی 14 اکتوبر 1955 کو یہ بل نافذ العمل ہو گیا۔ تاریخ میں اس بل کو ون یونٹ منصوبے کے نام سے شہرت حاصل ہوئی۔ علاقائی اور لسانی شناختیں ختم کر کے ایک پاکستانی شناخت والا اعلان اسی قانون کی منظوری کے موقع پر کیا گیا تھا۔ اس بل کی منظوری کے بعد وزیر داخلہ میجر جنرل سکندر مرزا نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانی عوام کو یہ خوش خبری سنائی: 'یہ صوبائی تعصبات کی لعنت کا خاتمہ کرے گا۔اس کے ذریعے پسماندہ علاقوں میں ترقی کا دروازہ کھلے گا۔ یہ انتظامی اخراجات میں کمی لائے گا، آئین سازی میں آسانی پیدا کرے گا۔ اور سب سے بڑھ کر مشرقی اور مغربی پاکستان کو زیادہ سے زیادہ صوبائی خود مختاری کی فراہمی کا ذریعہ بنے گا۔' کیا صوبائی منافرتوں کا خاتمہ، پسماندہ علاقوں کی ترقی، آئین سازی میں سہولت اور زیادہ سے زیادہ صوبائی خود مختاری کی فراہمی ہی اس فیصلے کی بنیاد تھی؟ پاکستان کی سیاسی تاریخ سے تعلق رکھنے والی بیشتر کتابوں میں شامل تفصیلات اور سیاسی امور کے ماہرین اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ سنہ 2002 کے عام انتخابات کے بعد مسلم لیگ ق کی وفاقی حکومت کے وزیر اطلاعات محمد علی درانی کہتے ہیں کہ ان کے پاس 1954 میں تیار کیے جانے والے پاکستان کے پہلے آئین کا وہ مسودہ آج بھی موجود ہے جس میں ملک کے مشرقی اور مغربی حصے کے درمیان آبادی کے توازن کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل کر دیا گیا، یعنی ملک کے دونوں حصوں کی آبادی کے تناسب کے عین مطابق قومی اسمبلی میں مشرقی پاکستان کی نشستوں کا تناسب 55 فیصد اور مغربی پاکستان کی نشستوں کا تناسب 45 فیصد تھا جس پر ملک کے دونوں حصوں میں پہلی بار اطمینان محسوس کیا گیا تھا۔ محمد علی درانی نے مجھے بتایا: 'اس سے پہلے کہ آخری خواندگی مکمل ہونے کے بعد یہ آئین نافذ ہو کر پاکستان کو سیاسی استحکام کے راستے پر گامزن کر دیتا، گورنر جنرل غلام محمد نے اسمبلی ہی کو تحلیل کر کے بحران پیدا کر دیا۔ اس کے بعد جو اسمبلی وجود میں آئی، اس میں ان کے ایما پر انتہائی جلد بازی میں ون یونٹ کے قیام کا اعلان کر دیا جس کے تحت قومی اسمبلی میں مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کی نمائندگی مساوی قرار پائی، اس طرح ملک کے مشرقی حصے کی عددی برتری کو پیریٹی کے اس فارمولے کے تحت مغربی حصے کی عددی کمی کے برابر قرار دے دیا گیا۔ گورنر جنرل غلام محمد ون یونٹ کی ضرورت کیوں محسوس کرتے تھے؟ اس کا اندازہ قیام پاکستان کے بعد پنجاب کے ابتدائی چند برسوں کے اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں، تجزیوں اور مضامین کے مطالعے سے سمجھ میں آتا ہے جن میں مشرقی پاکستان کی کثرت آبادی کو حقیقت کے منافی قرار دیا جاتا تھا۔ اس سلسلے میں روزنامہ شائع ہونے والا ایک مضمون خاص طور پر قابل ذکر ہے جس میں کہا گیا کہ مشرقی پاکستان کی بیشتر آبادی نابالغوں پر مشتمل ہے جسے ووٹ دینے کا حق حاصل نہیں۔ لہٰذا حقیقت یہی ہے کہ مشرقی پاکستان کی آبادی مغربی پاکستان سے زیادہ نہیں .

muhsin95ali · ย้อนยุค
เรตติ้งไม่พอ
1 Chs

’اب اس ملک میں کوئی بنگالی رہے گا نہ پنجابی، سندھی رہے گا نہ پٹھان، نہ بلوچ، نہ بہاولپوری اور خیر پوری اگر کوئی رہے تو وہ ہو گا پاکستانی اور صرف پاکستانی۔‘

'اب اس ملک میں کوئی بنگالی رہے گا نہ پنجابی، سندھی رہے گا نہ پٹھان، نہ بلوچ، نہ بہاولپوری اور خیر پوری اگر کوئی رہے تو وہ ہو گا پاکستانی اور صرف پاکستانی۔'

پاکستان کی قومی اسمبلی میں اس روز چہل پہل معمول سے زیادہ تھی، کسی خاص دن کی طرح، پھر یہ دن ایک یادگار کیفیت اختیار کر گیا جب قائد ایوان محمد علی بوگرا اپنے خصوصی پروٹوکول کے ساتھ ایوان میں داخل ہوئے۔

سپیکر قومی اسمبلی نے ایوان کی کارروائی شروع کی اور قائد ایوان کو خطاب کی دعوت دی۔ اس کے بعد ایوان میں وزیر اعظم محمد علی بوگرا کی جانی پہچانی آواز گونجی جس پر ان کا بنگالی لہجہ غالب تھا۔

اپنے پرجوش خطاب میں انھوں نے پاکستان کے مختلف صوبوں کی علاقائی شناختوں کے خاتمے کا اعلان کر کے صرف ایک پاکستانی قومیت کے وجود اور اس کے پھلنے پھولنے کا اعلان کیا اور کہا کہ یہ تمام شناختیں آج سے ختم ہوئیں، آج سے ہماری ایک ہی شناخت ہے اور وہ ہے، پاکستان۔

اشتہار

اس سفر کی ابتدا 22 نومبر 1954 کو ہوئی تھی جب وزیر اعظم پاکستان محمد علی بوگرا نے گورنر جنرل غلام محمد کی ایما پر ایک مسودہ قانون کی تیاری کا اعلان کیا جو ایک ایسے دور کی تمہید ثابت ہوا جسے آگے چل کر ایک بڑے بحران کا نکتہ آغاز بننا تھا۔ اس اعلان کے ٹھیک دس مہینے کے بعد اسی قومی اسمبلی نے بل کی صورت میں پیش کیے گئے اس قانونی مسودہ کی منظوری دی جس کے تحت مغربی پاکستان کے تمام صوبوں اور علاقوں کو ایک ایک صوبے میں ضم کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور تجویز کیا گیا کہ باہم ضم کیے گئے ان صوبوں اور علاقوں کو صوبہ مغربی پاکستان کا نام دیا جائے گا۔

اس بل کی منظوری کے ٹھیک دو ہفتے کے بعد یعنی 14 اکتوبر 1955 کو یہ بل نافذ العمل ہو گیا۔ تاریخ میں اس بل کو ون یونٹ منصوبے کے نام سے شہرت حاصل ہوئی۔ علاقائی اور لسانی شناختیں ختم کر کے ایک پاکستانی شناخت والا اعلان اسی قانون کی منظوری کے موقع پر کیا گیا تھا۔

اس بل کی منظوری کے بعد وزیر داخلہ میجر جنرل سکندر مرزا نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانی عوام کو یہ خوش خبری سنائی:

'یہ (بل) صوبائی تعصبات کی لعنت کا خاتمہ کرے گا۔اس کے ذریعے پسماندہ علاقوں میں ترقی کا دروازہ کھلے گا۔ یہ انتظامی اخراجات میں کمی لائے گا، آئین سازی میں آسانی پیدا کرے گا۔۔۔۔۔۔۔۔ اور سب سے بڑھ کر مشرقی اور مغربی پاکستان کو زیادہ سے زیادہ صوبائی خود مختاری کی فراہمی کا ذریعہ بنے گا۔'

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

کیا صوبائی منافرتوں کا خاتمہ، پسماندہ علاقوں کی ترقی، آئین سازی میں سہولت اور زیادہ سے زیادہ صوبائی خود مختاری کی فراہمی ہی اس فیصلے کی بنیاد تھی؟

پاکستان کی سیاسی تاریخ سے تعلق رکھنے والی بیشتر کتابوں میں شامل تفصیلات اور سیاسی امور کے ماہرین اس سے اتفاق نہیں کرتے۔

سنہ 2002 کے عام انتخابات کے بعد مسلم لیگ ق کی وفاقی حکومت کے وزیر اطلاعات محمد علی درانی کہتے ہیں کہ ان کے پاس 1954 میں تیار کیے جانے والے پاکستان کے پہلے آئین کا وہ مسودہ آج بھی موجود ہے جس میں ملک کے مشرقی اور مغربی حصے کے درمیان آبادی کے توازن کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل کر دیا گیا، یعنی ملک کے دونوں حصوں کی آبادی کے تناسب کے عین مطابق قومی اسمبلی میں مشرقی پاکستان کی نشستوں کا تناسب 55 فیصد اور مغربی پاکستان کی نشستوں کا تناسب 45 فیصد تھا جس پر ملک کے دونوں حصوں میں پہلی بار اطمینان محسوس کیا گیا تھا۔

محمد علی درانی نے مجھے بتایا: 'اس سے پہلے کہ آخری خواندگی مکمل ہونے کے بعد یہ آئین نافذ ہو کر پاکستان کو سیاسی استحکام کے راستے پر گامزن کر دیتا، گورنر جنرل غلام محمد نے اسمبلی ہی کو تحلیل کر کے بحران پیدا کر دیا۔ اس کے بعد جو اسمبلی وجود میں آئی، اس میں ان کے ایما پر انتہائی جلد بازی میں ون یونٹ کے قیام کا اعلان کر دیا جس کے تحت قومی اسمبلی میں مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کی نمائندگی مساوی قرار پائی، اس طرح ملک کے مشرقی حصے کی عددی برتری کو پیریٹی (برابری) کے اس فارمولے کے تحت مغربی حصے کی عددی کمی کے برابر قرار دے دیا گیا۔'

گورنر جنرل غلام محمد ون یونٹ کی ضرورت کیوں محسوس کرتے تھے؟

اس کا اندازہ قیام پاکستان کے بعد پنجاب کے ابتدائی چند برسوں کے اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں، تجزیوں اور مضامین کے مطالعے سے سمجھ میں آتا ہے جن میں مشرقی پاکستان کی کثرت آبادی کو حقیقت کے منافی قرار دیا جاتا تھا۔

اس سلسلے میں روزنامہ 'زمیندار' میں شائع ہونے والا ایک مضمون خاص طور پر قابل ذکر ہے جس میں کہا گیا کہ مشرقی پاکستان کی بیشتر آبادی نابالغوں پر مشتمل ہے جسے ووٹ دینے کا حق حاصل نہیں۔ لہٰذا حقیقت یہی ہے کہ مشرقی پاکستان کی آبادی مغربی پاکستان سے زیادہ نہیں ہے۔

یہ گویا ایک ثابت شدہ حقیقت کو جھٹلانے والی بات تھی جس کے حق میں کئی برس تک ملک میں جارحانہ پروپیگنڈہ جاری رہا جس کے لیے اسی نوعیت کی کئی دیگر تاویلات بھی پیش کی گئیں۔

اس سلسلے میں روزنامہ 'زمیندار' ہی نے جنوری 1953 میں اپنے ایک اداریے میں لکھا:

'دونوں ایوانوں میں نشستوں کی تعداد کا تعین کرتے وقت محض آبادی نہ دیکھی جائے بلکہ رقبہ، آمدنی اور فوجی اور دفاعی مصلحتوں کا بھی خیال رکھا جائے۔'

ممتاز قانون دان حامد خان کے مطابق اس ساری تگ و دو اور پروپیگنڈے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں کو مرکز میں اقتدار کے حصول سے روکا جاسکے۔

یہ پس منظر تھا جس کے تحت ملک کے دونوں حصوں کی آبادی کو نظر انداز کر کے قومی اسمبلی میں انھیں برابر نمائندگی دے دی گئی جسے سیاسی تاریخ میں پیریٹی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

ملک کا منتخب ایوان تحلیل کر کے ایک نئے ایوان کے ذریعے اس فارمولے کے نفاذ کی فوری ضرورت کیوں محسوس کی گئی؟

ڈاکٹر ناظر محمود اپنی کتاب 'آلٹرنیٹو ہسٹری' میں لکھتے ہیں کہ اس کا فوری سبب مشرقی پاکستان کے صوبائی انتخابات میں جگتو فرنٹ کی بھاری اکثریت سے کامیابی تھی جس سے خطرہ محسوس کیا جانے لگا تھا کہ مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے سیاستِ مرکزی میں بھی اقتدار میں آسکتے ہیں۔

حامد خان نے بتاتے ہیں کہ 'گورنر جنرل غلام محمد نے ملک کی پہلی قانون ساز اسمبلی کو بھی اسی وجہ سے تحلیل کیا تھا تاکہ اسمبلی کی طرف سے پیش کیے جانے والے 1954 کے آئینی مسودے سے جان چھڑائی جاسکے۔ اگر یہ منصوبہ بروئے کار آ جاتا تو اس کے ذریعے اقتدار مشرقی پاکستان کو بھی منتقل ہو جاتا۔ یہ ملک کے طاقت ور طبقات کے لیے قابل قبول نہ تھا۔'