webnovel

ناول دلِ دل

قسط نمبر 1

عجیب سی بےچین صبح تھی۔۔۔ موبائل پر الارم کی چیخیں بڑھتی جا رہی تھیں۔ خود کو بمشکل جاگنے پر آمادہ کرتے جب اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو دائیں جانب کھڑکی کے سامنے سے پردہ اٹھا ہوا تھا اور تیز روشنی بڑے دھڑلے سے کمرے میں داخل ہو کر کمرے کو روشنی سے بھرنے میں مصروف تھی۔

مگر دل اور دماغ اتنے بوجھل تھے کہ

تیز روشنی کے باوجود بھی اندر کا اندھیرا نہیں چھٹا تو اس نے آنکھیں بند کر کے پھر سے کھولی اور اندھیرا دور کرنے کی کوشش کی۔

مگر بےسود

خود کو زبردستی جگاتی وہ بستر سے اٹھی اور واشروم کی طرف بڑھی۔ دفتر کے لئے تیار ہوتی وہ کمرے سے نکلی تو

ہلکے نیلے رنگ کے سوٹ میں ملبوس دوپٹے کو اچھی طرح خود پر لئے بالوں کے پونی بنائے تھی۔ چہرہ ہر طرح کی مصنوعی زیبائش سے پاک تھا۔ آئینہ دیکھے بنا ہی

وہ ناشتہ کئے بغیر ہی گھر سے آفس کے لیے نکل آئ۔۔۔

آفس آکر اس کو لگا دنیا بدل گئ۔ کیونکہ وہ بدل گئ۔۔۔

اپنے اندر کا درد چھپا کر وہ آفس کی سب سے بہترین ورکر بن گئ۔ جس کا ہر کام بہترین ہوتا ہے۔

کیونکہ وہ عنادل ملک تھی۔ کسی کو اپنی ذات تک رسائی نا دینے والی بظاہر پتھر جیسی سخت گیر لڑکی۔

آپ میرے اس ناول دلِ دل کی مزید اپڈیٹس میرے پیج اور پروفائل سے بھی پڑھ سکتے ہیں

**********

یہ ایک پوش علاقے میں بنی بڑی سی حویلی ہے جس کو قدیم طرز پر بنوایا گیا ہے۔ ایسی حویلیاں شہروں میں کہیں نہیں پائ جاتی۔۔

دیکھ کر لگتا ہے جیسے کسی کا خواب امانت تھا جس کی تعبیر یہ حویلی ہے۔

اس کے آہنی دروازے کو دیکھ کر ہی انسان حسرت سے دنگ رہ جائے۔

یوں لگتا تھا جیسے کسی قدیم دیوتا کا عکس ہے۔

اس پر کندہ کئے گئے حروف

"من و عن"

اس کی پر اسراریت میں اضافہ کرتے تھے۔

آپ میرے اس ناول دلِ دل کی مزید اپڈیٹس میرے پیج اور پروفائل سے بھی پڑھ سکتے ہیں

*******

اپنے کمرے میں دفتر کے لئے تیار ہوتےنک سک سے دلاور خان نے خود پر ایک تنقیدی نگاہ ڈالی۔پر لبوں پر آئ مسکراہٹ نے ہوا کو بتایا کہ کہ یہ خود کو کسی کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔

مگر یہ نہیں پتا کہ جس کی نگاہ سے خود کو وہ آئینے میں دیکھ رہا ہے اسے تو برسوں بیت گئے آئینہ سے آمنا سامنا کئے۔

بلیک ڈریس پینٹ کے ساتھ ہلکے نیلے رنگ کی شرٹ اور کنٹراسٹ میں ٹائپ لگائے وہ خوبرو نوجوان کسی کا بھی دل دھڑکانے کی صلاحیت رکھتا تھا۔

مگر جس کے لئے تیار تھا وہ تو پلٹ کر دیکھتی ہی نہیں تھی۔ اس کے باوجود دل کا دل ہمت ہارنے کو تیار نہیں تھا۔

جب تیار ہو کر باہر آیا تو کھانے کی میز پر ناشتہ چنا جا چکا تھا۔

اپنے دل کی کیفیت کے مطابق اس نے خان لالا کو آواز دی۔

تو وہ بوتل کے جن کی طرح فورا حاضر ہوا۔

جی سائیں

خان لالہ ایک 45 سالہ طاقتور جسامت والا ملازم تھا جو دلاور کے لئے پرسنل سیکریٹری بھی تھا، منشی بھی، اور محافظ بھی۔

اگر خان لالہ کا عہدہ دلاور سے پوچھا

جاتا وہ جان لالہ کو اپنا سایہ کہا کرتا تھا۔

اور یہ حقیقت تھی کہ دلاور کی ماں نے خان لالہ کو دلاور کا سایہ بنا کر ساتھ بھیجا تھا کیونکہ دلاور کسی کی امانت تھا ان کے پاس۔۔ اور خان لالہ اس امین کا

تحفہ تھے۔

امین کون تھا یا تھی اور اس کا اس "من و عن " کی

دیواروں سے کیا تعلق تھا یہ تو وقت اپنے ماضی کے پنے پلٹتا تو پتا چلنا تھا

اسی "من و عن " کے ہی ایک کمرے میں سب راز دفن تھے جس کی خبر صرف دو لوگوں کو تھی۔

دلاور کے آواز دینے پر خان لالہ نے گاڑی تیار ہونے کا عندیہ دیا تو وہ ناشتہ پیک کر کے آفس بھیجنے کا حکم سناتا باہر چل دیا

*****

ہلکے گلابی رنگ کی گھٹنوں تک آتی خوبصورت قمیض ساتھ جینز او پر مفلر کی طرح گلے میں دوپٹہ لپیٹے وہ پریشانی سے پکار رہی تھی۔۔۔۔

"دل!

دل!

کہاں ہو یار سامنے آو۔۔۔ پلیز۔ اب میں پریشان ہو رہی ہوں۔"

" دل سامنے آ نہیں تو مار پڑے گی آج تجھے میرے ہاتھ سے کوئ نہیں بچائے گا"

تھوڑی دور ایک مردانہ آواز میں دل کو ڈھونڈنے کی آواز سنتے وہ اس آواز کے تعاقب میں چلنے لگی کیونکہ دوسری طرف ایک بلیو جینز پر پر سرخ ٹی شرٹ پہنے لڑکا بھی زور زور سے آوازیں لگا رہا تھا۔

"دل! دل! For God sake

اب آ جا۔۔۔ یار میں ہار مان رہا ہوں نا۔"

اپنے پیچھے کسی کی موجودگی محسوس کرتے وہ پلٹا تو منزہ اسے غصے سے گھور رہی تھی۔۔ لڑکی کو یوں غصے سے گھورتا پا کر اس نے ہم کلامی کی۔

"عالی رضا! تیرے نصیب میں جان پہچان والی تو چھوڑ انجان لڑکیوں کی طرف سے یہی عزت لکھی ہے۔ کہ تجھے بنا جانے ہی یوں گھورتی ہیں جیسے تیرا قرض دینا ہو"

پھر پلٹ کر اپنے دل سے قریب دوست کو آواز دینے لگا۔۔۔۔

عالی رضا:" دل یہ لاسٹ وارننگ ہے۔۔۔ آ جاو نہیں تو میں نے تمہیں چھوڑ کر چلے جانا ہے۔"

منزہ: ابھی تم کس کو پکار رہے تھے

عالی: دل کو

منزہ: لیکن کیوں

عالی: کیا مطلب کیوں۔۔ دوست کو آواز دینے کے لیے مجھے کسی کی اجازت کی ضرورت ہے؟

منزہ: لیکن میں دل کی اکلوتی دوست ہوں۔ اور دل کے فرینڈ لسٹ میں لڑکا تو ممکن ہی نہیں۔

عالی: ھاھاھاھا ھاھاھاھا اب سے کچھ دیر پہلے تک میں بھی دل کا اکلوتا دوست تھا اور اس کے سرکل میں لڑکی دوست ناممکن تھی۔

دونوں نے ایک دوسرے کو عجیب سی نظروں سے گھورا۔

قسمت دو الگ جگہوں پر محبت کی داستان رقم کرنے کے لئے قلم اٹھا چکی تھی۔

اور محبت تو طوفان لاتی ہے۔۔

مگر بھَلا نا هو اس محبت کا جو ماضی کے طوفان کو پھر سے بُن کر جال کی طرح پھینکنے کو تیار کھڑی تھی۔ اور دو معصوم اس جال میں پھنس کر اس کا شکار بننے والے تھے۔

باقی آئیندہ