webnovel

مختصر کہانی

[: جب عکس رقص کناں لگے۔

۔ازقلم۔

ملال درد

مجھے شوخ رنگ پسند ہیں پائل پسند ہیں سرخ گلاب مجھے پاگل کر دیتے ہیں مجھے محبت پسند ہے مجھے انتہاء عشق میں حد سے گزرنے والے لوگ پسند ہیں۔۔مجھے نفرت ہے نازک کلیوں سے جو زخم نہ دینے کے باوجود بھی مسلی جاے۔۔

ارےارے ارے نمل بس کر دو تمہیں سمجھنا ہمارے بس میں نہیں اور ہاں سچ پوچھو تو ریان کی تو ہنسی میں نے نوٹ کی جب وہ اپنا ہونٹ بھینچ کے مسکراہٹ کا گلا گھونٹ رہا تھا۔۔

سیریسلی ۔۔۔

ریان کیا آپ میری باتوں پر ہنس رہے تھے بتائیں زرہ۔

ارے نہیں نہیں میری اتنی ہمت جو میں مس نمل کے ارشادات پر ہنسے کی گستاخی کروں یہ فرح تو بس دروغ گوئی کر رہی۔۔

اسی بات پر کلاس میں موجود سب نے مل کر قہقہا لگا دیا۔

چلو اٹھو نمل کیا سوچ رہی ہو۔۔

فرح ایک بات بتاؤ تمہیں کیا لگا ریان نے سب کے سامنے میری انسلٹ کی ؟

نمل پاگل ہو کیا۔ اس نے تو تمہادی بات کی سعی کی ہے۔

اچھا ۔۔۔۔نمل ایک گہری آہ بھرتے ہوئے۔

ہاں بابااب چلو ورنہ سر عدنان کی کلاس مس ہو جاے گی۔

ہاں ہاں چلو چلو۔۔۔۔

______________________________________________فرح بیٹا ۔۔۔۔۔۔

جی سر آپ کا انٹریو ہونا تھا کیسا رہا۔

سر وہ تو اگلے ماہ کی ایکس تاریخ ہے

اچھا اچھا ۔بیٹی اچھے سے تیاری کرنا اگر ٹیسٹ کے لے کچھ کتابیں وغیرہ یا نوٹس چاہیئے تو مجھ سے پیسے لے لینا ۔

ارے نہیں نہیں ۔سر آپکا بہت شکریہ

بیٹی یہ کچھ پیسےرکھ لو۔تمارے کام آئیں گے۔

سر میرے پاس تو ابھی ہیں مجھے میم انیلا نے دیئے تھے

اچھا چلو ٹھیک ہے۔میں چلتا ہوں۔

یہ یتم خانہ بھی کیسی جگہ ہوتی ہے بے شمار بچپن ایک ہی چھت کے نیچے پروان چڑھتے ہیں رنگ نسل ، ذات پات پر بات نہیں ہوتی پر ہاں محبت کی قوس قزح ہر چہرے سے عیاں ہوتی۔۔۔

فرح کی آنکھ سے اترنے والے ایک موتی نے اسے خیالوں کی دنیا سے حقیقی دنیا میں لینڈنگ کروائی۔ایک گہری سانس کو اپنے روم روم میں اتار کرجیسے وہ خود کو ہر آدم ذات سےبےنیاز کر رہی تھی۔

چلو سب لائیٹس آف کر دو ۔۔۔۔

یہ وہ آواز تھی جو کبھی 8 بجے سے ایک سکینڈ بھی اوپرنہ ہونے دیتیئ اور ساری لائٹس آف ہو جاتیں۔۔

سن سن سن۔۔۔

یہ آواز فرح کے لے انجان نہ تھی یہ آواز تو اسے زندگی کے 14سال پہلے لے جاتی جب وہ یہاں ائ تھی وہ کار ایکسیڈینٹ جس نے فرح کو یتیم کر دیا اس سے اسکا بچپن گھر اور ماں باپ چھین لیے۔فرح اس رات ایک ننھی سہمی ہوئی پری تھی جسے اس کی سلطنت سے ایک جھٹکے میں بے سروسامان میں نکالا گیا تھا اس کے سر سے ماں کا آنچل چیھن کر اور باپ کی آغوش چیھن کر اسے !ہر بچہ محفوظ یہاں کی دہلیز پر لا کھڑا کیا تھا۔رشتے داروں نے تو پہچاننے سے صاف انکار کر دیا کہ یتیمی کا بوجھ کم تو نہیں ہوتا ۔۔..

یہ آوزیں فرح کو ایسے محسوس ہورہی تھی جیسے وہ آج بھی وہیں کھڑی ہے شل پاؤں اور چھنی دل کیساتھ فرح کی سوچوں کا ربط انیلا کی آوازپے ٹوٹا فرح بیٹے آپ ابھی تک جاگ رہے کیا بات ہے۔

نہیں وہ میں وہ۔۔۔۔فرح جیسے کسی بات کا گلا گھونٹ رہی تھی آواز با مشکل نکلی الفاظ ٹوٹ کر ادا ہورہے۔تھے

فرح بیٹا اتنا وقت گزر گیا آپ آج بھی وہیں کھڑی ہو وقت کیساتھ چلنے والے ہی کامیاب ہوتے ہیں بیٹے بھول جاؤ اس حادثے کو کب تک اس طرح خود کو ازیت دیتی رہو گی۔چندا۔

میم۔اپکوپتہ ہے مجھے ماما کہ آخری الفاظ نہیں بھولتے بابا کے بہتے آنسو نہیں بھولتے۔وہ لمس نہیں بھولتا وہ خون سے بھرے ہاتھ نہیں بھولتے وہ ہجر کی شام۔نہیں بھولتی اگر کوئی کہے نہ کہ تم نے قیامت دیکھی ہے تو میں کہوہاں وہ شام قیامت تھی۔فرح کا ضبط آنسو کی شکل میں اسکے گال پر رواں تھا۔

بس کر دو بس میری لاڈلہ بس کر دو۔۔۔

_______________________________________________نمل ہاے ۔۔کیسے ہیں سب لوگ ۔

نمل کی آواز حال میں سناٹے کو توڑتی ہوئی ہر سماعت سے ٹکرای۔

ریان ۔نمل تم۔کبھی آہستہ آواز میں نہیں بول سکتی یہاں کچھ اور لوگ بھی ہے اپکی اطلاع کے لے عرض ہے۔

نمل اچھا جی۔

فرح ۔۔۔نمل چھوڑو یار جانتی ہو نا ریان کو کتنا تنگ کرتا ہے تمہیں ۔۔

فرح مجھے سمجھ نہیں آتی ریان کی کسی کیساتھ نہیں کرتا یہ بس مجھے تنگ کرتا ہے مجال ہے کہ مجھے کبھی ہنستا برداشت کر لے۔۔۔

ارے ارے ارے۔۔۔

اصل میں جہاں پیار ہو وہاں تکرار تو ہوتی ہے۔۔۔۔

نمل کی گال سرخ گلابی ہو گے ۔۔

جیسے وہ ریان کی مناسبت سے خود کو دنیا کی حسین لڑکی تصور کرتی تھی۔۔۔

نمل یہ کمپٹیشن ٹیسٹ کب تک ہے فرح نے ہاتھوں کو مسلتے ہوئے کہاں ۔۔

یار مجھے تو کوئی اندازہ نہیں میں ریان سے پوچھ کہ بتاونگی اسے یقیناً پتہ ہوگا۔

جی جی آپکے ریان کو پتہ ہوگا۔

دونوں حال میں مسکراہٹ بکھرتے ہوئے بغلگیر ہوے۔

موبائل کی سکرین پےمانو بلی کا نوٹیفیکیشن دیکھ کر ریان بے ساختہ مسکرایا۔۔

ریان کے گال پے پڑنے والا ڈمپل مسکان سے مزید نمایاں ہوجاتا۔

جی جناب کیا مسئلہ ہو اپکوسکون نہیں مل رہا جو ہمارا سکون برباد کرنے ا گی۔

نمل نے حسب معمول کال کاٹ دی اور ہمیشہ کی طرح سکرین پر بلی کا ایموجی جگمگایا اور ایک سیکنڈ کے وقفے سے ریان نے کال کی۔

جی جناب کیسی ہو بانو بلی کیا بات تھی۔

کوئی بات نہیں۔

مزاق کر رہا تھا بتاؤ تو سہی کیا کہنا تھا۔

نمل ہمیشہ کی طرح وعدہ لینا نہ بھولی آئندہ تو ایسے تنگ نہیں کرینگے۔

نہیں جناب میں آئندہ تنگ نہیں کرونگا ۔ایک منٹ کے بعد

۔۔۔۔۔۔

بلکہ اس سے زیادہ تنگ کرونگا ۔۔۔

نمل۔۔۔میں کال کاٹ رہی ہوں۔

ارے ارے ارے روکو روکو مزاق کر رہا ہوں نہیں کرتا تنگ کیا ہو رہا۔کچھ خاص نہیں بس ویسے ہی بیٹھی تھی کچھ رسمی سے گفتگو کے بعد نمل کو فرح کی بات یاد آی

ریان۔

جی

وہ کمپیٹیشن ٹیسٹ کب ہے کالج کا۔

وہ تو فرح سے پوچھو آخر میڈم ہماری جی آر ہیں۔

نمل کا بے ساختہ قہقہا بلند ہوا۔

جناب ہماری جی آر نے ہی پوچھا ہے ۔

اوہو۔

اچھا جی میں دیکھ کر بتاتا ہوں۔اپ مجھے فرح کا نمبر دے دو میں انھیں بتا دونگا

ہاں ہاں۔+++++++++++09

اوکے۔تھینکس میری بلی۔

ریانننننننن۔ن کو کھنچتے ہوے نمل نے کہا۔

مزاق کر رہا ہوں ۔۔۔

نمل جی

ریان کے منہ سے اپنا نام سنتے ہی نمل کے چہرے پر حیا کےسرخ رنگ بکھرگے۔

اوکے اللہ حافظ۔.....

السلامُ علیکم ورحمتہ وبرکاتہ۔۔۔۔

یہ آواز فرح کے لے انجان نہ تھی۔۔۔

پر وہ حیران تھی کہ ریان کے پاس اس کا نمبر کیسے گیا۔۔

وعلیکم السلام۔۔

کیسی ہیں اپ۔

جی الحمداللہ میں ٹھیک ہو ۔۔اپ کیسے ہیں۔جی میں بھی

ٹھیک۔

وہ میں اپکو یہ بتانے کے لیے کال کی ہےکہ کمپیٹیشن ٹیسٹ کی ڈیٹ فائنل ہو گی ہے اور21 ہے۔تو آپ تیاری کر لیجیے گا۔

ہاں میں نے نمل کو کہا تھا کہ آپسے پوچھ کے بتاے چلیں ٹھیک ہے آپ نے خودی بتا دیا۔

اس سے پہلے کےریان شکریہ کے لے بات کو مزید بڑھاتا ۔فرح نے کال کاٹ دی

عجیب لڑکی ہے بجاے شکریہ کے کال کی کاٹ دی بات ہی نہیں سنی۔۔پاگل ہیں دونوں

نمل کا خیال آتے ہی مسکرایا تھا ریان۔جس نےا سکے گال پر پڑنے والےڈمپل کو گہرا کردیا

انیلا میڈم نے کمرے میں لائٹس آن دیکھی تو فرح کے پاس آگئی بیٹا کیا ہوا آج اتنی رات کو جاگ رہیں ہیں آپ سونے کا ارادہ نہیں ۔۔۔

نہیں وہ اصل میں ۔۔۔اتنا کہہ کر فرح خاموش ہوگی۔

انیلا۔۔بیٹا بلا جھجک کہوکیا کہنا چاہتی ہیں اپ۔

وہ اصل میں۔۔

فرح نے انیلا کی طرف دیکھا یہ اسکی زندگی میں وہ واحد انسان تھی جس پروہ نمل کے بعد سب سے زیادہ بھروسہ کرتی تھی ۔۔

وہ انیلا میم۔۔میری جاب انٹرویو اور کمپٹیشن ٹیسٹ کی تاریخ ایک ہی ہے میں اس لئے بہت پریشان ہوں۔۔۔

ارے پاگل اس میں پریشانی والی کیا بات ہم تو تمہیں کب سے کہہ رہی کہ تم جاب کے چکر میں ابھی مت پڑو ابھی اپنی پڑھائی پر توجہ د و رہنے دویہ جاب والا بھوت کہاں سے سر چڑھا لیا ہے آپ نے چندا۔۔۔

انیلا میم۔۔۔۔اپ تو جانتی ہیں آپ کے اس جگہ کے کتنے احسانات ہیں مجھ پے میری زندگی کا ایک ہی مقصد ہے میں آپ سب کے لیے کچھ کرنا چاہتی ہوں میں چاہتی ہو ں کہ آپ لوگو ں کے لیے اپنی زندگی صرف کر دو۔۔۔۔۔۔

میرا ہر خواب اس جگہ اور یہاں رہنے والے ہربچے کے لیے ہے۔۔میں انکی زندگیا ں مزید بہتر کرنا چاہتی ۔۔۔۔۔اتنا کہہ پای تھی۔

ارے بیٹی اس میں پریشان ہونے والی کونسی بات ہے آپ بس ٹیسٹ کی تیاری کرو۔جا ب تو اچھی پڑھائی کی بعد اعلیٰ سطح کی مل جاے گی۔۔۔

ہممممممم۔۔۔

چلو زیادہ مت سوچو اور ریسٹ کرو۔

فرح بے ربط سوچوں میں گم نا جانے کب نیند کی وادی میں چل دی۔۔۔

_______________________________________________

فرح کیسی ہو۔۔

اللہ کا شکر ہے تم سناؤ کیسی ہو ۔

یار میں ٹھیک ہوں ۔پر۔۔۔۔

پر کیا پریشان لگ رہی ہو بتاؤ کیا بات ہے رات کو میری کال بھی پک نہیں کی۔

نمل اصل میں میں کشمکش کا شکار ہوں۔ایک طرف جاب انٹرویو اور دوسری طرف کمپیٹیشن ٹیسٹ دونوں ہی میرے لے کافی اہم ہیں پر میں کیا کرو میری سمجھ میں کچھ نہیں ا رہا۔

ارے اس میں پریشان ہونے والی کیا بات ہے کمپٹیشن ٹیسٹ دے دو اور جاب بھی ہو جائے گی۔۔۔

کیسے۔۔۔۔۔۔۔فرح اضطرابی کیفیت میں نمل کو دیکھ رہی تھی

ہو جائے گی یار۔

کیا ہو گیا ہے ابھی ساری زندگی ہےجاب بھی کر لینا۔

یار نمل تمہیں نہیں پتہ جاب اج کل نہیں ملتی اور میں نے اتنی محنت سے اس جاب کا ٹیسٹ سیشن پاس کیا ایسے کیسے انٹرویو سے پہلے چھوڑ دوں۔

ارے یار تو کمپیٹیشن ٹیسٹ بھی تو تمہارے لے بہت ضروری ہے ورنہ تم آگے کیسے کرو گی سکالرشپ سیشن بھی جلد ختم ہو جاےگا۔

ہاں یہی سوچ تو مجھے ہلکان کر رہی۔

خیر چھوڑو ابھی تین دن ہے کر لیں گے کچھ نہ کچھ۔

ہمممممممم

تم سناؤ تمہارا ہیرو دے رہا ہے۔۔

جی جناب ریان کی تو فل تیاری ہے۔۔۔

ہاں ریان یہ ٹیسٹ کلیئر کر لے گا جانتی ہوں میں اسے۔

نمل تم نہیں دے رہی ۔

نہیں یار مجھے پتہ ہے ریان اپنے آنے والے کل کے لے تو دے رہا مجھے ہی فائدہ ملے گا۔۔۔

آف اللہ۔یہ لڑکی۔۔۔

ریان کو دور سے آتا دیکھ۔نمل

مسکرای

ارے ارےچپ چپ جناب آرہے ہیں۔

اوہو اچھا۔۔ تو جناب کو آتا دیکھ بولتی بند ہو گی۔

ہاہاہاہاہاہاہا

تو تم دونوں کیوں اتنے دانت نکال رہی ہو

فرح نے بمشکل اپنی مسکان سمیٹی اور اسکا سرخ چہرا اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ وہ اب مزید یہاں نہیں روک سکتی۔

میں جا رہی ہوں آپ دونوں باتیں کریں

کیوں جناب آپ کہاں۔ جارہی۔۔

ریان نے فرح کا ہاتھ سے روکنے کا اشارہ کیا۔

دراصل مجھے لائبریری سے کچھ بکس چاہیے تو مجھے وہاں جانا

اوہو اچھا اچھا ہاں ہاں تم جاؤ شاباش۔

نمل نے فرح کو بھیجنا چاہا۔۔

فرح نے نمل کے کان میں سرگوشی کی جناب جا رہی ہو ں ۔۔۔۔

دونوں مسکرای

نمل جی جی۔کل میری فرح سے بات ہوئی۔

اچھا تو کیا ہوا کچھ نہیں پتہ نہیں کیوں وہ مجھ سے بات نہیں کرنا چاہ رہی تھی۔شائد

ارے وہ ایسی ہی ہے سدا کی کھڑوس۔

او اچھا اچھا ۔۔۔۔دوںوں مسکراے۔

________________________________________________اللہ حافظ۔

ارے فرح بیٹا آج اتنی جلدی جا رہی ہو ۔

ارے میم آج میرا انٹرویو ہے نہ بس اس لے اور ٹیسٹ بھی ہے میں چاہ رہی انٹرویو میں سب سے پہلے دو اور پھر وہاں سے ٹیسٹ کے لے چلی جاؤ بس دعا کریں جلدی فری ہو جاؤ اور دونوں مینج ہو جاے

ارے ضروربیٹی۔

اچھا سنیے وہ نمل کو میں نے کہہ دیاہے وہ آج سیکنڈ ٹائم ا کر آپ کے ساتھ نئے آنے والے بچوں کی فائل بنا دے گی

بیٹا آپ نے ویسے ہی اسے زحمت دی میں یہاں کیسی بچی سے کروا لیتی

ارے نہیں نہیں انیلا میم آپ تو جانتی ہیں نے نمل تو وہ خود چاہ رہی تھی کہ وہ یہاں آ کر ہماری کچھ مدد کر دے وہ اس سلسلے میں آنا چاہ رہی تھی تو میں نے ہی اسے کہا کہ ساتھ میں میرا یہ کام۔بھی کر دینا۔

اچھا اچھا بیٹی۔۔جاو اللہ کامیاب کرے۔

دعاؤں میں انیلا نے فرح کو رخصت کیا۔

________________________________________________اس کشادہ کمرے میں داخل ہونے والی فرح واحد لڑکی تھی اسے وہ اپنی خوش قسمتی سمجھتی یا پھر اللہ کا کرم کچھ بولنے سے قاصر تھی۔۔۔

بند آنکھوں کے ساتھ اللہ کا شکر ادا کیا اور کال۔ہونے پر جیسے اندر گی تو سامنے بیٹھے شخص نے فوراً اسکا استقبال کیا ویلکم مس فرح۔

تھینکس سر۔

مس فرح یس سر جی میں آپکی ہی فائنل دیکھ رہا تھا رسمی گفتگو کہ بعداس شخص نے فرح کو اللہ حافظ کہہ دیا۔انشاء اللہ ہم۔جلد اپکو کال کرینگے۔

فرح مطمئن تھی۔کمرے سے باہر نکلنے کےبعد وہ فوراً یونیورسٹی جانا چاہتی تھی روڑ کہ کنارے اردگرد سےبے نیاز اپنی ہی دھن میں چلے جا رہی تھی کہ سامنے سے ایک جیب نے زور سے بریک لگائی اور جیب سے نکلنے والا شخص کوئ اور نہیں بلکہ ریان علی تھا۔6 فٹ کا خوب روح جوان اپنے دلکش نین نقش سے کسی کو بھی متاثر کرنے کی صلاحیت رکھنے والا۔

تو مس فرح لگتا ہے ٹیسٹ سے دستبردار ہونے کا ارادہ ہے فرح کی آنکھوں میں نمی اور ہونٹوں کی کپکپاہٹ کو یکسر نظر انداز کرتے ہوے ریان اسکا مزاق اڑا رہا تھاجب خاموشی نے طویل ہوئی تو ریان نے فرح کی جانب دیکھا تم تو رورہی ہو فرح بی ریلکس کچھ نہیں ہوا میں تومزاق کر رہا تھا ایم سو سو سوری فرح۔میرا مطلب ہرگز اپکو رولانے کا نہیں تھا۔ریان بولے جا رہا تھا جبکہ فرح مسلسل رورہی تھی ان سب سے لا پروا کے سامنے کھڑا شخص کون ہے فرح کے زہن میں 15سال پہلے والا وقت گھوم گیا وہ سڑک کنارے کار ایکسیڈینٹ وہ کانپ رہی تھی۔

فرح فرح فرح۔وہ ریان کی باہوں میں جھول رہی تھی اس پاس کی ہرشے سے بے خبر۔

فرح فرح آنکھیں کھولو فرح نمل ہسپتال کہ کمرے میں اسے جھنجھوڑ رہی تھی۔۔نمل رو رہی تھی فرح پلیز آنکھیں کھولو۔ فرح۔

کیا ہوا تھا ریان فرح کو صبح تو بلکل ٹھیک تھی۔

ڈاکٹر معائنے کے لے اے تو ریان نے سارا قصہ نمل کو سنایا نمل جانتی تھی کہ فرح کی اس حالت کی اصل وجہ اسکے کیساتھ 15سال پہلے پیش آنے والا وہ واقعہ تھا اس سے پہلے کہ وہ ریان کو بتاتی نرس نے ا کر نمل کو آواز دی۔

نمل کون ہیں

وہ مریضہ نمل کو بار بار بولا رہیں ہیں

جی میں ہوں نمل۔

فرح کیسی ہو

میں ٹھیک ہوں اورتم۔کیسی ہو اب

میں ٹھیک ہوں نمل پلیز تم مجھے ٹیسٹ کے لیے لے چلو مجھے دینا ہے وہ ٹیسٹ تمہیں نہیں پتہ وہ کتنا ضروری ہے۔

نمل نے اسوقت فرح کی حالت کو دیکھتے ہوئے مناسب نہ سمجھا کہ اسےبتاے کہ اسے یہاں سے ایک پورا دن گزر گیا اور اب رات کے دس بج رہے۔

ہاں فرح بس ڈاکٹر معائنے کے بعد ہمیں یہاں سے فری کرتے ہیں تو چلتے ہیں۔

میم آپ زیادہ باتیں نہ کریں ان سے مریضہ کی حالت سٹیبل نہیں ابھی۔

جی جی بس

فرح تم ریسٹ کرو۔میں تمہارے لے کچھ کھانے کو لاتی ہوں اور ڈاکٹر سے پوچھ بھی لونگی کہ اب ہم جاسکتے۔۔۔

مس نمل آپ انکی کیا ہیں اور انکے گھر والے کہاں ہیں

ڈاکٹر نے فرح کی اپ ڈیٹ دینے کے لیے نمل کو بلوایا

جی میں ان کی بہن ہوں اور ہماری فیملی فلحال یہاں نہیں ہے ۔اظطرابی کیفیت اور حالت کو بھانپتے ہو نمل نے خود کو فرح کی بہن ظاہر کیا ۔

اووووہ اچھا..

رات بہت گہری ہو رہی ہے نمل بیٹا آپ کا بہت شکریہ اب اپ گھر چلے جاؤ میں سنبھال لونگی ۔

جی آنٹی خیال رکھیے گا اپنا۔

ریان چلیں

نہیں میں فرح کو اس حالت میں چھوڑ کر نہیں جا سکتا جیسے ہی وہ سٹیبل ہوگی میں چلا جاؤنگا ۔۔

ارے نہیں ریان بیٹا آپکا بہت شکریہ آپ نے بروقت فرح کو ہسپتال پہنچا کر پہلے ہی ہم پر بہت احسان کیا ہے آپ بھی جائیں ہم۔سنبھال لینگے۔

ارے نہیں آنٹی ایسے کیسے آپ سنبھال لینگی اگر کسی چیز کی ضرورت ہوئ تو میرا یہاں ہونا ضروری ہے آپ کیسے سنبھالیں گی۔

جی آنٹی ریان صحیح کہہ رہا ہے آپ اکیلے کیسے کرینگی۔

چلو ٹھیک ہے بیٹا جیسے اپکو مناسب لگے

۔

رات ڈھائ بجے کا وقت تھا جب فرح ہوش میں آیا فرح کے بڑبڑانے کی آواز سنتے ہی ریان نے آنکھیں کھولیں ۔

ماما بابا میں کہاں جاؤنگی آپ کے بغیر بابا ماما مجھے بھی جانا ہے آپ کیساتھ میں نہیں رہ سکتی آپ کے بغیر۔بابا ماما

فرح کی زرق آنکھوں سے آنسو رواں تھے

فرح سنبھالو خود کو فرح کیا ہوا ہے مجھے بتاؤ کیا ہوا ہے فرح

ریان نے فرح کو سنبھالنے کی کوشش کی

فرح نے ریان کی آواز پر آنکھیں کھولیں وہ نم آنکھوں کیساتھ ریان کی طرف دیکھ رہی تھی ریان کسی

[ ریان کسی مسیحا کی طرح اس اپنی آغوش میں لے ہوے تھا

میں مر جاؤنگی اکیلی بابا میں مر جاؤنگی ماما مجھے ساتھ لے چلیں ماما۔

فرح فرح ہوش میں آؤ میں تمہارے ساتھ ہوں فرح۔

ریان مجھے ڈر لگ رہا ہے مجھے اکیلے مت چھوڑنا پلیز

نہیں چھوڑوں گا۔فرح تم سنبھالو خود کو میں تمہارے ساتھ ہوں خود کو سنبھالو تم اکیلی نہیں ہو فرح

فرح کی رونے کی آواز سن کر انیلا بھی اندر آ گی

بیٹا میں آپکے ساتھ ہوں کیا ہوا ہے میری جان آنکھیں کھولو دیکھو

فرح نے آنکھیں کھول دیں انیلا میم

آپ مجھے اکیلا نہیں چھوڑیں گی نا آپ مجھے چھوڑ کے نہیں جائیں گی ناں۔

نہیں میری جان کہیں نہیں جاونگی۔

_______________________________________________ریان ساری رات کمرے میں یہاں وہاں چکر لگا رہا تھا وہ جانتا تھا کہ فرح کےماں باپ بچپن میں کسی حادثے کا شکار ہو کر چل بسے تھے وہ نم آنکھیں آنسو سے تر چہرے وہ چاہ کر بھی نہیں بھول پا رہا تھا فرح کا چہرہ اسکے سامنے باربار ا رہا تھا۔

وہ پچھلے تین دن سے یونی نہیں ا رہی تھی یہ فکر اسے فرح کے لیے مزید پریشان کر رہی تھی۔ آخر کیا وجہ ہوگی ۔۔۔

نمل

السلامُ علیکم ۔۔۔جناب اتنی رات کو خیریت

نمل وہ میں تم سے فرح کے بارے میں پوچھنا چاہ رہا تھا کہ وہ پچھلے تین دن سے یونی کیوں نہیں ا رہی۔

اوہو

مجھے بتانا یاد ہی نہیں رہا۔اصل میں میں جس دن ملتان آرہی تھی فرح نے مجھے بتایا تھا کہ اس نے یونی چھوڑ دی ہے

وہ مزید آگے نہیں پڑھ سکتی۔

دراصل وہ جس ٹرسٹ میں رہ رہی ہے ان کے مالی حالات اتنے سٹیبل نہیں ابھی تک تو وہ اسکالر شپ پے پڑھ رہی تھی آگے مزید خرچوں کی وجہ سے اسکا مزید پڑھنا سے ناممکن لگ رہا تھا وہ اسی لے کمپٹیشن ٹیسٹ دینا چاہتی تھی تاکہ وہ مزید اسکالر شپ کے لیے اپلاے کر سکے اور اپنی سٹڈیز کو جاری رکھے۔

اووووہ ایک گہری سانس لینے کے بعد ریان گویا ہوا۔نمل تمہیں نہیں لگتا ہمیں اسکی مدد کرنا چاہیے

ریان اپکو کیا لگتا ہے میں نے اسکی مدد کرنے کی کوشش نہیں کی ہو گی اصل میں فرح بہت خوددار ہے وہ کبھی بھی ہم سے مدد نہیں لے گی میں نے اسے کہیں دفعہ سمجھانے کی کوشش کی ہے پر وہ نہیں مانی وہ تو نوکری بھی ٹرسٹ کے اپنے اوپر ہونے والے احسانات کو ختم کرنے کے لےکرنا چاہ رہی ہےدن رات ایک ہی سوچ ہوتی ہے فرح کی کہ وہ ایسا کیا کرے جس سے وہ اپنے اوپر کیے جانے والے احسانات کا بدلا چکا سکے وہ خود کو ٹرسٹ کی ملکیت سمجھتی ہے وہ سمجھتی ہے کہ وہ کچھ بھی کر لے وہ انکے احسانات کے بدلے میں کچھ نہیں۔اس نے اپنی زندگی ٹرسٹ اور وہاں رہنے والے یتیم بچوں کے لے وقف کر دی ہے۔۔۔

ریان۔سن رہی ہو

ریان جو کب سے فون کاٹ چکا تھا اس کشمکش میں مبتلاء تھا کہ فرح کیسی لڑکی ہے یہ تو لڑکیوں کی زندگی کے سب سے حسین دن ہوتے ہیں اس کی تڑپ اسکے درد اور اسکی ازیت کو وہ کس طرح کم کر سکتا ہے وہ ایسی سوچ میں مبتلا تھا۔

کہ دود دور سے ازان کی آواز آنے لگی۔

_______________________________________________

نمل کیسا رہا پیپر۔

ریان خاموش ہو جائیں پتہ ہے مجھے تمہارا بہت اچھا ہو ا ہے اس لے مجھے تنگ کرنے کی ضرورت نہیں ہے سمجھے

میں بس فرح کو انتظار کر رہی تھی ورنہ مجھے تمہارا پتہ تھا اور ویسے بھی میں تم سے بحث کے موڈ میں نہیں ہوں۔

اچھا تو اس کا مطلب پیپر بہت ہی ۔۔۔بہنت ہی پر آکر ریان اور شاہد نے جاندار قہقہا لگایا۔

وہ لائٹ پرپل ڈریس میں کوئی حور لگ رہی تھی آج پورے ایک ماہ اور اٹھارہ دن کے بعد وہ ان آنکھوں کو دیکھ رہا تھا جو آج بھی ویسے ہی نم تھی جیسے ابھی شبنم بکھرے ہوں۔

زہے نصیب زہے نصیب۔شاہد نے فرح کو آتے ہی چھیڑا۔

فرح مسکراتے ہوے نمل۔کی طرف متوجہ ہوئی۔۔

نمل کیا بات ہےموڈ کیوں ف ہے ریان آپ نے کچھ کہا۔

ارے نہیں جناب ہماری اتنی ہمت کہ ہم ان کو کچھ کہہ سکیں۔

نمل ۔۔چپ کرو تم ریان۔فرح کیسی ہو ریان کو چپ کروانے کے کے اس سے اچھا کوئ اور بہانہ نہیں تھا کہ وہ فرح کیساتھ مصروف ہو جاے۔

ہاں الحمداللہ ۔۔تن سب سناؤ کیسے ہو

ہم تو ڈر گے تھے کہ کہیں فرح میڈم ایگزام تو نہیں چھوڑ دیں گی

نہیں شاہد بھائی اصل میں میرا آگے پڑھنے کا کوئی موڈ نہیں اور یونی ٹائم کی وجہ سے بہت سے ضروری کام رہ جاتے تو میں نے سوچا کیوں نہ میں ایگزام کے لے ہی یونی جاؤ بس اس لیے

اوہہ اچھا

تو کیا کرتی ہیں آپ مارننگ ٹائمنگ میں زرہ وہ ضروری کام ہمیں بھی بتائیں۔

اصل میں ریان میں ایک جاب کر رہی ہوں جس کی ریکوائرمنٹ مارئنگ کی تھی تو مجھے چھوڑنی پڑی یونی۔

اوہو۔اچھا اچھا۔

باتوں کا سلسلہ ایسے ہی بڑھتا رہا اچھا گائزمیں چلتی ہوں اوکے فرح او میں ڈراپ کر دوں

ارے نہیں نمل اصل میں مجھے انیلا میم کیساتھ جانا ہے تو میں انکا ویٹ کر رہی ۔۔

اوکے اوکے اللہ حافظ

فرح

جی

وہ

کیا

فرح وہ۔۔۔

کچھ کہنا چاہ رہیں ہیں آپ یا میں چلوں

فرح دراصل میں آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں۔

جی کہیے

فرح آپ اپنی پڑھائی مت چھوڑیں میں چاہتا ہوں کہ آپ آگے پڑھیں

جی ۔۔۔پر میں آگے نہیں پڑھنا چاہتی تو آپ پریشان مت ہوں۔

فرح میں جانتا ہوں آپ پیپلز میری بات کا برا مت مانیے گا۔پر مجھے نمل نے سب کچھ بتا دیا ہے آپ کے بارے میں۔فرح خود کواس طرح ضائع مت کریں آپ ایک ٹیلنٹڈ اور سمجھدار لڑکی ہیں میں چاہتا ہوں کہ آپ مزید پڑھیں پلیز میں مدد کرنا چاہتا ہوں اپکی۔۔

او پلیزمسٹر ریان اپکوکس نے کہا مجھے آپکی مدد کے ضرورت ہے پلیز آپ اپنی امداد اپنے پاس رکھیں اور کسی مستحق جو دیں۔اور جانتی ہوں کہ آپ ایک بڑےجا گیردار کے بیٹے ہیں پرمیری آپ سے التجا ہے مجھے زرہ برابر بھی مدد کی ضرورت نہیں

فرح کا چہرہ ایک دم سرخ ہوگیا وہ رو رہی تھی اور مسلسل یہ کہہ رہی تھی مجھے یتیمی کےنام پر ملنے والی بھیک سے نفرت ہے شدید نفرت ۔۔۔

فرح میرا مقصد ہر گز آپکی انسلٹ کرنا نہیں پلیز میری بات کو سمجھیں وہ فرح کو اس حالت میں دوسری بار دیکھ رہا تھا۔وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ اس کی اس حالت کا زمہ دار بنیں۔۔

نا چاہتے ہوے بھی وہ اسکی اس حالت کا زمہ دار بن گیا۔۔

وہ زرق آنکھیں ایک بار پھر پرنم تھی اس کا وجود مارے تعش کے کانپ رہا تھا وہ اسے اپنی نظروں سے دور جاتا دیکھ رہا تھا وہ چاہ کر بھی اسکے درد کا ازالہ نہیں کر سکا تھا۔بللکہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی ازیت رسانی کا سبب بن بیٹھا

_______________________________________________نمل آج آخری پیپر ہے اور پلیز مجھے پڑھنے دو

فرح بس کر دو یار پڑھ پڑھ کے تمہیں کونسا کشمیر فتح کر لینا

نمل یار پلیز

ریان دور سےیہ منظر دیکھ رہا تھا۔

ہیلو

کیسے ہو آپ لوگ ہم تو ٹھیک ہیں پر آپکے انداز کچھ بدلے بدلے سے لگ رہے۔

شاہد نے ریان کو تھپکی لگاتی ہوے کہا

نمل کا چہرہ ریان کے آنے سے اک دم کھل اٹھا

آج تو میری بہت اچھی تیاری ہے ساری رات پڑھا ہے میں نے

ہاہاہاہاہاہاہا

ریان اب کیوں ہنس رہے ہیں آپ

وہ محترمہ میں اس کے ہنس رہا کہ ساری رات پڑھنے کے بعد بھی آپ الصبح مجھ سے نوٹس مانگ رہیں تھی۔

اس پر فرح بھی مسکرائی جس سے اسکے باے گال پر پڑنے والا ٹمپل نمایاں ہوا

ارے واہ۔۔۔۔۔۔۔اس سے پہلے کے ریان اپنے رخسار پر پڑنے والے ڈمپل کا موازنہ اس موم کی گڑیا سے کرتا بل بج چکی تھی۔

ہال کھچا کھچ بھر اہوا تھا۔

رول نمبر نہیں مل رہا مجھے پتہ نہیں کہاں ہے۔

اچھا تو تم رو کیوں رہی ہو کسی روم میں ہو گا نہیں ہے فرح میں ہر جگہ دیکھ چکی۔

نمل رو مت او میں ڈھونڈتی ہوں۔

تھوڑی سے خواری کے بعد وہ نمل کو وہاں چھوڑ ای۔

پیپر اتنا لمبا تھا کے گال میں ہر کوئی اسے کے متعلق چہ میگوئیاں کر رہا تھا۔

نمل کیسا رہا۔

بہت اچھا تھا یار۔

چلو چلیں

ہمممممم اللہ حافظ۔

وہ سڑک کنارے وین کے انتظار میں کھڑی تھی جب وہ اس کے روبرو ا کھڑا ہوا

اس سے پہلے وہ وہ کچھ کہتی اس نے اسکے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ دئیے

مجھے بے یقینی کی حالت میں اسے دیکھ رہی تھی آخر یہ اختیار اس نے کب دیا تھا ریان کو۔

اس سے پہلے کہ تم کچھ کہو میری بات سن لو فرح

میں چاہتا تھا تمہاری مدد کرنا پر تم نے صاف انکار کر دیا اگر تم میری مدد نہیں لینا چاہتی تو اپنا حق سمجھ کر میں تمہیں آگے پڑھاؤ گا۔

یہ سب وہ تصور بھی نہیں کر رہی تھی وہ بس چپ چاپ اسکے الفاظ سن رہی تھی وہ اسکے ہونٹوں پے ہاتھ رکھے اپنی بات مکمل کرنا چاہتا تھا۔

میرا طریقہ غلط ہو سکتا ہے پر میری نیت غلط نہیں پر اس کے لے بھی تم نے مجھے مجبور کیا میں تمہیں اپنے نکاح میں لانا چاہتا ہوں۔اتنا کہہ کر ریان نے فرح کے ہونٹوں سے ہاتھ اٹھایا۔۔۔۔

آنسو اسکے گال پر رواں تھے

یہ ممکن نہیں ریان

کیوں

یہ ممکن نہیں ریان

نمل

وہ نمل کہہ کر روکی تھی

اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ کہتی ریان گویا ہوا

نمل صرف میری چھوٹی بہن کیطرح ہے میرے اسکے لے جزبات قابل احترام ہے میرا یقین کرو فرح میں نے نمل کو کبھی بھی اپنی بہن سے کم نہیں سمجھا اور تم نمل کی فکر مت کرو میں اسے سمجھا کرونگا میں جانتا ہوں وہ تھوڑ نا سمجھ ہے پر مجھے یقین ہے وہ سمجھ جائے گی۔ پر پلیز فرح تم انکارمت کرنا میں چاہتا ہوں کہ تم بھی زندگی جیؤ تمہارا بھی زندگی پر اتنا ہی حق ہے جتنا میرا نمل یا کسی بھی اور کا پلیز فرح۔

پر۔۔۔میں

میں جانتا ہوں کہ تم ایک ٹرسٹ میں رہتی ہو۔اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ تم ایک باکردار لڑکی ہو مجھے یا میرے خاندان کو تمہارے ماضی سے کوئ سروکار نہیں ۔وہ اپنے جزبات فرح کو بتا چکا تھا۔۔۔۔۔۔

وہ نم۔انکھوں کے ساتھ ریان کو دیکھ رہی تھی جو اسے اپنی محبت کا یقین دلا رہا تھا ۔۔

_______________________________________________نمل سنو تو بلی ۔

ایک تو تم مجھے بلی مت کہا کرو کتنی دفعہ بتا چکی ہوں

اچھا تو چوکی کہا کرو

میں فون بند کر رہی

اچھا اچھا سنو۔

نمل سنو۔

جی کیا تم آج مل سکتی ہو

آج ہاں کیو ں نہیں کہاں

پتہ بتاتے ہوے اس نے کہا اور سنوفرح بھی ا رہی ہے

اووووہ

اچھا چلو پھر ملتے ہیں اسے بتا دیا ہے میں ایسا کرتی ہوں اسے پک کرتے ہوے آؤنگی

اوکے ہاں اسے پتہ ہے پھر بھی پک کرنے سے پہلے بتا دینا اوکے۔

نمل ۔۔۔سوچوں میں گم تھی ۔۔۔لگتا ہے آج وہ فرح کہ سامنے ہی ا لو یو سو مچ ریان۔میں جانتی تھی کہ تم بھی مجھ سے پیار کرتے ہو۔۔۔تو فائنلی وہ دن اگیا۔۔۔۔

ہیلومیم۔

چلیں

وہ فرح کو ریسیو کرنے گی تھی

ارے نمل بیٹی۔۔انیلا میم۔ نے نمل کو دیکھتے ہی پوچھا۔۔

جی میم اصل میں اس میم کو لینے آی ہوں

اچھااچھا۔کبھی کبھی چکر لگا لیا کرو اب تو تم آتی ہی نہیں لگتا ہے زیادہ مصروف ہو

ہاں وہ کیا نام تھا اس بچے کا ریان

ہاں ریان جاتا ہے کبھی کبھی

اچھا نمل کو جیسے کرنٹ لگا ریان یہاں سوچوں میں گم نمل کو فرح نے کہا چلیے

ہاں ہاں

نمل سارے راستے یہ سوچ رہی تھی ریان آخر کیوں آتا ہو گا۔ہو سکتا ہے انکل نے کوئ ڈونیشن وغیرہ دینے کے لے بیھجا ہو۔۔۔

نمل کہاں گم ہو ۔۔۔

ارے کہیں نہیں بس یہیں

ویلکم ویلکم

شاہد نے دونوں کا استقبال کیا۔

تھینکس جناب۔نم نے گرمجوشی سے کہا

ہمیں یہاں بولا کہ مسٹر ریان جہاں گم۔ہیں

وہ بس آتے ہی ہوں گے۔

لو اگے۔

ریان کے ہاتھوں میں سفید رنگ کے پھول دیکھ کر نمل کے چہرے پر جہاں حیا کے رنگ بکھرے وہیں فرح نظریں جھکا کر مسکرائی۔۔۔

ٹیبل پر پھول رکھ کر ریان دونوں کی جانب متوجہ ہوا۔

رواج میں آپ سب کے سامنے ایک بات اناؤنس کرنا چاہتا ہوں۔اس پر شاہد بولو

جی جی ہم۔سن رہیں ہیں محترم فرمایے

تو میں ریان علی اپنے پورے ہوش واواز میں مس فرح کو اپنی شریک حیات بنانا چاہتا ہوں ۔

اس سے پہلے کہ فرح کچھ کہتی نمل کہ آنکھوں سے آنسو چھلکےجو اسنے بڑی مہارت کے ساتھ بغیر کسی کو اپنے طرف متوجہ کیے صاف کیے ۔

ارے واہ چھپے رستم نمل اپنی کانپتی آواز کو کمال مہارت کے تاسھ ضبط کرتے ہوئے بولی

فرح مطمئن سی ہوگی کہ وہ جیسا سوچ رہی تھی ویسا نہیں ہے اسے ریان نے منع کیا تھا کہ وہ نمل کو اپنے طریقے سے سمجھاے گا۔

فرح نے پر تشکر انداز میں ریان کو دیکھا جیسا وہ اس کو داد دینا چاہ رہی ہوں کہ اتنی آسانی سے اس نے نمل کو منا لیا۔

فرح سفید کرتے پجامے میں کوئی پری لگ رہی تھی

نمل نے فرح کو گلے لگا کر مبارک باد دی اور نہایت پرجوش انداز میں ریان کو بھی مبارک کہا۔

_________________________________________________کب سے کال کر رہی ہوں آخر بندا اٹھا لیتا۔ ہے

وہ اصل میں میں زرا بزی تھی بتاؤ کیا بات کرنی

نمل

ہاں سن رہی ہوں بولو۔

نمل مجھے بہت ڈر لگ رہا۔

اچھا تو محترمہ جب محبت ہو رہی تھی تبڈر نہیں لگا

نمل کیا تم نہیں جانتی کوئ محبت نہیں تھی ہمارے درمیان مجھے تو خود خبر تک نہیں ہوئ کہ ریان کب مجھ سے اتنا معنوس ہوگئے

ہممم

اچھا تو بولو کیا ہوا۔ہے۔

نمل مجھ میں مزید کسی کو کھونے کی طاقت نہیں میں تمہیں اورریا ن کو نہیں کھو سکتی اپنے سارے رشتے کھوچکی ہوں نہیں چاہتی تمہیں اور ریان کو کبھی بھی کچھ ہو ۔۔بہت عجیب عجیب خیالات ذہن میٹ آرہے تھے تو سوچا تم سے بات کر لوں

اچھا سنومیں زرہ مزی ہوں اوکے بعد میں بات کرتےاللہ حافظ فرح۔

کیا ہو گیا ہےاس لڑکی کو ہروقت ہوا کے گھوڑے پےسوارریتی ہے

کال کی کاٹ دی ایسا بھی کیا کام۔

_________________&&&_______________&&&&_____اچھا تو جناب اب آپ ہماری کال بھی نہیں اٹھانا پسند کرینگی

ریان بزی تھی میں بچوں کو پڑھا رہی تھی

ااووؤ اچھا اچھا

میڈم ہمارے لے بھی تھوڑا وقت ملے گا کہ نہیں۔

آخر ہم۔اپکے نکاح یافتہ شوہر ہے

ہاں پر جناب ابھی آفیشل رخصتی باقی ہے

اوہو یہ تو ہم بھول گے تھے تو بتائیں کب اے پھر ہم۔اپکو آفیشل رخصت کرنے۔

اس پر تو زیر لب مسکراے

ریان۔جی ریان کی جان

ریان میں کھونا نہیں چاہتی اپکو

ہاں تو ہم۔کب کھونا چاہتے اپکو

ریان میں مزید کسی رشتے کو نہیں کھو سکتی

جیسے آپ نمل انیلا میم

اور ہمارے بچے

ریان میں سیریس ہوں

ہاں تو میں بھی سیریس ہوں۔

اچھا میں بعد میں بات کرتی ہوں۔اللہ حافظ

اس سے پہلے کے ریان مزید کچھ کہتے فرح نے کال کاٹ دی

وہ ہمیشہ ایسے کرتی ریان ۔۔۔۔۔۔

فرح میں تمہاری زندگی میں وہ تمام رنگ بھردونگا جہنیںٹ اب تک تم نے خود سے ان آشنا رکھا ہے ہر اس رنگ پر تمہارا حق ہے جس سے زندگی بہار لگے

وہ فرح کے بارے میں سوچتے ہوئے نیند کی وادی میں اترا

_______________________________________________اانٹئ مجھ سے تر اسےکوئ نہیں جانتا پر میں نہیں چاہتی کہ یہ بات میں ریان کو بتاؤ

وہ کیا سوچے گا کہ میں نے جانتے بوجھتے ہوے اسے اس دلدل میں جانے دیا لیکن آپ بھی مت بتانا میں اپکو بھی نہیں بتانا چاہتی تھی

پر میں آپ کے ساتھ ایسا نہیں کر سکتی تھی

آپ نے ہمیشہ مجھے اپنی بیٹی مانا ہے

بیٹا میں تمھارا یہ احسان کبھی نہیں بھولونگی تم نے ہمیں جگ ہنسائی سے بچا لیا۔تمہارا جتنا بھی شکریہ ادا کروں کم ہے

آنٹی میں اپکوبار بار بتا رہی ریان جو مت بتائیے گا اور اگر بتانا بھی ہوا تو میرا نام نہ آئے

نہیں بیٹا بے فکر رہو۔

_______________________________________________نمل بتاو ناں ویٹ یا ریڑ

ارے فرح تم پر دونوں رنگ پیارےلگےگیں

نمل یار رخصتی ہے میری۔زرہ سیریس ہو جاؤ

میں سیریس ہو محترمہ بس میری مانو سرخ سفید پہن لو اچھا لگے گا

اوکے ڈن

ماما آپ ابھی تک تیار نہیں ہوئیں۔

کیوں ریان تیاری کیوں ہونا

ماما آج رخصتی ہے ہماری

کون سے رخصتی ریان۔

ماما میں مزاق کے موڈ میں نہیں ہوں ہم پہلے ہی لیٹ ہیں

ریان۔۔

تم۔جانتے ہو جسے تم ہمارے گھر کی بہو بنا کر لا رہے اسکا ماضی کیسا ہے۔کس خاندان سے ہے وہ۔۔۔۔

ماما۔۔۔کیا ہو گیا ہے کیا باتیں لے کر بیٹھ گئی ہیں میں نے بتایا تھا نہ کہ فرح کے پیرنٹس کا16٫15 سال پہلے ایک ایکسڈنٹ میں انتقال ہوچکا۔اور وہ ٹرسٹ میں رہ رہی

یہ تمہیں کس نے بتایا ریان اس لڑکی نے۔

نہیں ماما مجھے نمل نے بتایا

اس لڑکی نے تمہیں اپنے ماضی کے متعلق کچھ نہیں بتایا۔کیونکہ وہ جانتی تھی اس داغدار ماضی کیساتھ اسے کوئ قبول نہیں کریگا۔

ماما بس میں مزید نہیں سن سکتا۔

سنا پڑے گا۔ریان وہ لڑکی یتیم نہیں بلکہ کسی عیاش کی

[ ناجائز اولا دہے جسے رات کے اندھیرے میں ٹرسٹ کے باہر پھینکا گیا تھا۔اس گند کے ڈھیر کو میں ہر گز

اس سے پہلے کے نورین بیگم مزید کچھ کہتی ریان گھر سے باہر نکلا

وہ گاڑی کی رفتار کو بڑھا رہا تھا۔

فرح بیٹا فون کر کے پوچھو کہاں تک پہنچے ہیں وہ لوگ۔رات کافی ہوگی ہے اب تک تو آجانا چاہیے تھا

جی میم میں کال کر دہی ہوں پر کوئی اٹھا نہیں رہا ریان کا فون مسلسل اف جارہا۔

نورین کو فون کرو جی میں کرتی ہوں نمل بولی

جی جی بیٹا آپ کرو

وہ لوگ نہیں ا رہے کیوں

۔۔۔

۔۔۔

اس سے پہلے کہ نمل مزید کچھ کہتی فرح بولی ریان ٹھیک ہیں

ہاں ۔فرح وہ ٹھیک ہے پر وہ یہ رشتہ توڑنا چاہتا ۔۔

فرح فرح بیٹا ا آنکھیں کھولو فرح کیا ہوا ہے آنکھیں کھولو فرح۔۔۔۔۔

وہ ہسپتال میں ویسی ہی کیفیت میں تھی جیسے آج سے 16سال پہلے وہ جس نے اسے واپس زندگی کی طرف لانے کا دعویٰ کیا تھا وہ اس سے اس کی زندگی کا مقصد بھی چھین چکا تھا۔

وہ جو اس وعدے پر سکا ساتھ نھبا رہی تھی کےہر رنگ سے آشنا کروائے گا۔اسے عمر بھر کے لیے ہجر کا رنگ رنگ گیا تھا

میں نے انہیں انجکشن لگا دیا ہے

اب یہ تھوڑی دیر آرام کرینگی

نرس نے انیلا کو ا کر بتایا جو مسلسل تین راتوں سے اس کیساتھ جاگ رہی تھی۔

مریض پہلے سے بہتر ہے آپ بھی اب باہر چلے جائیں۔

_______________________________________________تین دن ہو گے ہیں اسےان کچھ کھاتا ہے نہ بولتا ہے بس یہی رٹ لگائی ہے پوچھنا ہے اس سے جواب چاہی کیوں دیا دھوکہ یہیں سوال ہیں جو بار بار دھراتا ہے یہ لڑکا پورےگھرکو ڈسٹرب کر دیا ہے اس نے۔

آنٹی میں بات کرتی ہوں

ریان دروازہ کھولیں ریان۔

دروازہ کھولیں

مجھے کسی سے کوئی بات نہیں کرنی ۔۔

ریان میں ہوں نمل پلیز۔

بلآخر ریان نے کافی دیر بعد دروازہ کھولا۔

ریان میں نہیں جانتی تمہارے اور فرح کے درمیان کیاہوا پر مجھے بہت افسوس ہے جو کچھ بھی ہوا تمہارے ساتھ غلط ہوا ۔

نمل تم جانتی تھی کہ فرح کی اصلیت کیا ہے۔تم۔نے مجھے کیوں نہیں بتایا۔

ہاں جانتی تھی ریان پر فرح نے مجبور کیا تھا وہ نہیں چاہتی تھی کہ کسی کو بھی پتہ چلا اس بات کا وہ چاہتی تھی تم انجان رہو ان سب سے۔اور میں کب بتاتی تمہیں تم دونوں نے مجھے عین ٹائم پر بتایا ریان میں تمہاری فکر کرتی ہوں تمہیں اس حال میں نہیں دیکھ سکتی پلیز رحم کرو خود پر آنٹی پر کس کے لیے سبکو ازیت دے رہے وہ جو اپنی زندگی میں خوش ہے۔اسے کوئی فرق نہیں پڑتا ریان بھول جاؤ اسے

۔۔کیسے بھول جاؤ نمل کیسے محبت کی تھی میں نے اسے نکاح میں ہے وہ میرے پیار کرتا ہوں اسے اور اس نے اتنی بڑی بات مجھ سے چھپائی سوچ بھی نہیں سکتا ۔۔شرم آتی ہے مجھے خود سے۔نظریں نہیں ملا پا رہا کسی سے بھی۔۔۔

ریان ان سب میں تمہارا کوئی قصور نہیں خود کو تکلیف مت دو۔____________________________________________

انیلا بیگم فرح بیٹی کی طبیعت کیسی ہے اب۔

بہتر ہے پہلے سے کافی اب ماشاءاللہ اور مزید بہتر ہو جاے گی بڑی بہادر بچی ہے فرح سنبھال لے گی۔ان شاءاللہ۔

فرح بیٹی آؤ بیٹھو۔

فرح۔

فرح جو سوچوں میں گم۔تھی انیلا کے تین چار بار بلا نے کے بعد ہم میں جواب دیا۔

فرح بیٹے کب تک ایسے بیٹھی رہوگی۔۔

تم تو بہت بہادر بچی ہو نا تم نے تو ابھی بہت سی ذمہ داریاں نبھانی ہیں ایسے ہمت ہار جاوگی تو کسیے کروگی اپنے خواب پورے۔

میں تھک گئی ہوں آپ جانتی ہیں میں نے ریان سے پہلا وعدہ ہی یہی لیا تھا کہ کبھی چھوڑنا مت مجھے میں نہیں برداشت کر پاؤ گی پھر کیسے وہ ایسا کرسکتا۔

میں نے تو کبھی اسے اس ارادے سے بھی نہیں دیکھا تھا اس نے خود مجھے پیشکش کی پھر کیوں مجھے ایسے دربدر کر دیا۔

اس نے کیوں کیا ایسا میرے ساتھ اگر میں اس کے قابل نہیں تھی مجھے خواب کیوں دیکھاے۔

مجھے رنگوں سے سناشائ کے دعوے کیوں کیے۔

مجھے کیوں اس نہ ختم ہونے والی تکلیف میں مبتلا کر دیا۔کیوں اسے ترس نہیں آیا مجھ پر۔۔۔۔۔کیوں۔

فرح رو رہی تھی آج تین ماہ ہوچکے تھے فرح ایک لمحے کو بھی اس قرب سے نہیں نکل پارہی تھی۔

_____________________________________________&

نمل بیٹی تم نے میرے ریان کو نئی زندگی دی ہے اگر میں تم سے کچھ مانگو تو تمہیں انکار تو نہیں کروگی۔

نہیں آنٹی آپ تو مجھے میری ماما کی طرح عزیز ہیں کہیے

بیٹی۔ریان سے شادی کرو گی

پر آنٹی

پر ور کچھ نہیں

آنٹی وہ ریان

ریان کو تم چھوڑ دو اسے میں منا ہونگی بس تم مان جاو۔

نمل مسکرای

آخر اس کا وہ خواب پورا ہونے جا رہا تھا جس کے لیے اس نے اپنی سب سے عزیز دوست کے خواب چھیننے تھے وہ فرح کو ہجر کا رنگ دے کر خود زندگی میں رنگ وبو کی سیج سجانے چلی تھی ۔۔اج نمل کی زنگی میں صرف اسکی وجود ہی نہیں عکس بھی رقص کناں تھا خوشی ا سکی روح تک کو سرشار کر رہی تھی

بس ریان مزید ایک لفظ نہیں اپنی مرضی کرچکے تم اب اس لڑکی کو آزاد کرو اور نمل کو اس گھر کی بہو بنا کر لے او۔

کیا نمل۔

جی نمل میں نے اس سے بات کی ہے اور میں تمہاری ایک بات نہیں سنوگی اس اتوار ہی تمہارا اور نمل کا نکاح ہے۔

______________________________________________ہجر کا رنگ بھا گیا ہے انیلا میم مجھے آج دل بہت اداس ہے ایسے جیسے کوئ عزیز شے چھن جانی حلانکہ کچھ بھی عزیز نہیں اب۔

فرح بس کر دو ایسے نہی کہتے

چلو جو نئے بچے اے ہیں ان کے لے کچھ کپڑے لے آتے ہیں

جی چلیے

چار سو شامیانے بجاے جا رہے تھی نمل جسے خوشبو ،گلاب اور شوخ رنگ پسند تھے آج اسکی زندگی کو ان سب سے نوازا گیا۔۔۔۔

اور اللہ جسے چاہے نوازتا ہے اور جس سے چاہے چھین لیتا ہے۔

اسے نوازا جا رہا تھا۔۔

اور اللہ کسی بشر پر ظلم نہیں کرتا ہاں مگر ہم خود ہی اپنے اوپرظلم۔کرتے ہیں۔۔۔

وہ خوش تھی بہت خوش ریان سنبھل چکا تھا۔

وہ اپنے خوابوں کے محل کی طرف گامزن تھی ایک زور دار چیخ نے سب کچھ ختم کردیا۔

اور اللہ سب سے بڑا کارساز ہے۔

ڈاکٹرز کیسی ہے وہ

ہم۔کچھ نہیں کہہ سکتے بس دعا کریں آپ لوگ آپکا مریض بلکل بھی سٹیبل نہیں۔

ریان کمرے کے چکر لگا رہا تھا اسے وہ رات کسی ڈرامے کے منظر کی طرح اپنی آنکھوں کے سامنے رونما ہوتی دیکھای دی وہ بے سود وجود ۔نم آنکھیں۔۔۔

_______________________________________________تین ماہ کا عرصہ ناجانے کیسے گزرا آج وہ کومہ سے ہوش میں آئ تھی۔ڈاکٹر معائنہ کر رہے تھے

کیسی ہے نمل کیسی ہے میری بچی۔

ہمیں بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ نمل اب کبھی چل نہیں پائے گی۔اس کے وجود کا ایک تہائی حصہ پیرالائز ہو چکا ہے۔

ریان ۔۔کککککیا

کیا

نورین بیگم

ہم نمل کا کہیں اور سے علاج کروائے گے۔

محترمہ اگر آپ اسے کیسی تیسری دنیا میں بھی لےجاے تو وہاں بھی انکا علاج ممکن نہیں ۔۔

ان کا جسم آدھے سے زائد ناکارہ ہو چکا۔

ریان نم آنکھوں کے ساتھ اسے دیکھ رہا تھا ایسی کونسی خطا تھی جس کی اتنی بڑی سزا دی جا رہی تھی

_______________________________________________فرح دیکھو زرہ یہ ساری چیزیں تھیں یا کچھ باقی ہیں

ارے نہیں انیلا میم ہو گئیں مکمل چلیں۔

جی جی

جو شخص اسے کے سامنے کھڑا تھا فرح خواب میں بھی اس چہرے کو نہیں بھولا سکتی تھی۔۔

کیوں آخر کیوں کیا آپ نے

آپ تو مجھے رنگوں سے آشانہ کروانے والے تھے جو چند رنگ میری زندگی میں تھے وہ بھی چھین لے۔وہ اس کا گریبان پکڑ کر کہہ رہی تھی

چھوڑو مجھے تم نہیں جانتی کیا تیعش کے عالم میں ریان نے ایک زود دار تھپڑ فرح کے گال پے رسید کیا۔

نہیں جانتی تو سنو تمہارے ناپاک خون کو اپنےوجود کا حصہ نہیں بنا سکتا تھا۔وہ چپ تھی اور ریان کی آنکھوں میں سرخی اتری ہوئی تھی۔

انیلا چلو فرح چلو یہاں سے۔

انیلا نے فرح کو وہاں سے نکالا۔۔۔

--جھوٹے ہیں یہاں دعویدار عشق کے سبھی

___نیلام کردیا ہمیں بھرے بازار میں۔

________________________________________________نمل کے وجود کا آدھے سے زائد حصہ ناکارہ ہوچکا تھا اس میں بھی اللہ کی قدرت کی تھی اسکی زبان شل نہ ہوئی تھی وہ اپنی غلطی کا کفارہ کر کی اپنے آخرت سنوار سکتی تھی۔وہ نم آنکھوں سے ریان کو دیکھ رہی تھی جیسے کچھ کہنا چاہتی ہو ۔

تین ماہ کی اسدردناک کیفیت کے بعد جو لفظ اس کے منہ سے پہلے ادا ہوے تھے وہ فرح کا نام تھا ریان اور اس کے پاس کھڑی نورین بیگم حیران تھیں کہ آخر نمل فرح کا نام کیوں لے رہی تھی۔

ریان ۔ریان

جی نمل بولو۔کیا کہنا چاہتی ہو۔

ریان فرح کو بلاؤ میں معافی مانگنا چاہتی ہوں اس سے۔

کس چیز کی معافی

لرزتے ہونٹوں کیساتھ وہ اتنا کہہ پائی آپ پلیز فرح کو بلوا دیں۔۔۔

نمل کی حالت کو غیر ہوتا دیکھ نورین بیگم اور ریان اسے ہسپتال لے گئے۔

ہسپتال جاتے ہوئے نورین بیگم۔نے فرح کو پیغام بھجوایا کہ وہ نمل سے ا کر مل جائے ۔۔

نمل کی حالت کا سنتے ہی فرح جلدی سے ہسپتال کے لے نکلی۔

کیا ہوا تھا انہیں اپکو بتایا تھا کہ انھیں پریشانی والی باتوں سے دور رکھیں۔۔۔۔

نرس نے سوالیہ نظروں سے ریان اور نورین بیگم کو دیکھا۔

اتنے میں فرح کمرے کے عقبی دروازے سے نمودار ہوئی۔

کیا ہوا ہے نمل کو اور یہ ایسے کیوں پڑی ہے۔

نرس نے فرح سمیت سبکو باہر نکالا اور انھیں خاموش رہنے کی تنبیہ کی۔

ڈاکٹرز نے معائنہ کےبعد کمرے سے واپس جاتے ہوئے ریان کو بلایا۔

مسٹر ریان علی آپکی وائف کی حالت نارمل نہیں ہمیں خدشہ ہے کہ انکی حالت مزید بگڑ سکتی ہے اس لے ہمیں انھیں کچھ روزوینٹ پر رکھنا ہو گا۔۔۔

ریان کے ذہین میں نمل کر آخری الفاظ گونج رہے تھے فرح سے معافی۔

انجانی کیفیت کا شکا ر تھا کہیں فرح۔۔۔اتنے میں نرس نے باہر آکر کہا مریض اب بہتر ہے آپ مل سکتے

ریان نورین بیگم اور فرح تینوں اندر داخل ہوے ۔

نمل نے آنکھیں کھولتے ہی فرح کو اپنے قریب پایا ۔تو یک دم گویا ہوئ

مجھے معاف کر دو فرح میں تمہاری اور ریان کی گنہگار ہوں میں اندھی ہو گئی تھی ریان کی محبت میں ۔۔میں نے ہی ریان کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پوری داستان سنا چکی تھی نمل کپکپاتی آواز اور نم آنکھوں کیساتھ نمل کی سانسیں اکھڑنے لگیں ۔

آخری سانس لیتے ہوئے نمل یہ الفاظ ادا کر رہی تھی فرح مجھے معاف کر دینا۔فرح مجھے معاف کر دینا۔۔۔۔

نرس سائڈ پے ہو ڈاکٹرز کو چیک کرنے دیں سائڈ پر ہو جائیں۔

کیسی ہے نمل نورین بیگم نے ڈاکٹر کو آتے ہوئے پوچھا ۔۔ایم سو سوری ہم آپ کے مریض کو نہیں بچا سکے۔۔۔

ریان فرح کی جانب دیکھ رہا تھا جسے وہ پہلے ہی نا کردہ گناہوں کی خوفناک سزا دے چکا تھا۔۔۔۔

نمل نے اپنے کیے کی سزا پا لی تھی۔۔۔

۔۔

۔۔

۔

انیلا میم میں کب سے اپکو بلا رہی ہوں کہاں ہیں اپ۔

سامنے بیٹھے وجود کو فرح نے یکسر نظر انداز کیا

فرح۔۔

ریان بات کرنا چاہتا ہے تم سے

مجھے اس شخص سے کوئی بات نہیں کرنی ۔نہیں جانتی میں انہیں۔کوئ رشتہ نہیں اس شخص سےمیرا۔

فرح پلیز میری بات سنو

آپ نے سنی تھی آپ نے مجھے میری صفائی کا موقع دیا تھا۔

فرح تم آج بھی میرے نکاح میں ہو۔

کیا کہا ۔۔۔کونسا نکاح جس کی لاج تم نہ رکھ سکے۔میرے وجود کو گرد آلود کہا تھا ا پ نے۔اس گرد آلود خون کو اپنے وجود کا حصہ نہیں بنانا چاہتے تھے۔

فرح بول رہی تھی وہ چپ چاپ کھڑا تھا

نم آنکھوں کے ساتھ ۔

۔فرح ۔

ان الفاظ کو ادا کرنے میں ریان نے ایک مدت گزاری تھی انسو اس کے عنابی گال سے سرکتے ہوے اس کے باے ڈمپل کو تر کر رہے تھے 6فٹ کا گبرو جوان اپنے ضبط کو ایک لڑکی کی خاطر کھو بیٹھا تھاایسی لڑکی جو اب ان سب سے بے نیاز تھی۔

کوئی ایک دروازہ بھی نہیں کھولنا چاہتی اس سوال نے ایک لمبی خاموشی کو جنم دیا تھا۔

ریان رو رہا تھا وہ اسے ایسا تڑپتا نہیں دیکھ سکتی تھی۔

آپ نے تو رنگوں سے سناشائ کا وعدہ کیا تھا کیوں پھر ہجر کے رنگ کو میرا مقدر بنایا۔

ہر رنگ تمہارے آ نگن میں رقص کناں ہونگے وعدہ ہے اب کبھی بھی تمہیں کسی رنگ سے محروم نا رکھونگا۔۔۔

خوشی کے آنسو رقص کناں تھے۔