webnovel

chapter #02

آج اٹھارا دن کی طویل قید و بند کی اذیت سہنے کے بعد مجھے رہائی مل گئی تھی۔۔ ہسپتال مجھے علاج خانہ کم قید خانہ ہی لگنے لگا ہے اب زبردستی جکڑ کر علاج کے نام پر مجھے وہاں روک لیتے ہیں۔۔۔

اور ڈاکٹر زاہد صاحب اس قید خانے کے جیلر جن کے لیکچر سدھر جاؤ بی بی، تم سے بہتر تمہارا خیال کوئی نہیں رکھ سکتا ، ہم صرف علاج کر سکتے ہیں ،دوا دے سکتے ہیں ،سنجیدگی سے میری بات پر عمل کیا کریں، انسان دوائیوں سے زندہ نہیں رہتا ہے اسے زندہ رکھتی ہے اسکے اندر اسکے جینے کی خواہش (وہ اکثر ہی یہ بات کہتے اور مجھے غصہ آتا اُن پر کہ جب معلوم ہے مجھ میں سے جینے کی خواہش ختم ہوگئی ہے تو مجھے میرے حال پر چھوڑ دو) ،،، آپ سُن رہی ہیں نا میری بات (جیسے اسکو بھی یقین ہو کے میں اسکی بات نہیں سن رہی ہوں) دوائیاں صرف مَرض کو ٹھیک کرنے کیلئے ایک کوشش ہے۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔

کیونکہ یہ شخص بہت بولتا ہے (خیر مجھ سے زیادہ نہیں) لیکن اسکی نصیحت سے مجھے کوفت ہوتی ہے۔۔۔کیونکہ کہ اسکی بات پر عمل کرنے کا میرا بلکل دل نہیں چاہتا

اسلئے یہ علاج خانہ نہیں مجھے قید خانہ لگتا کبھی کبھی میں سوچتی کاش اسکی جگہ کوئی ہینڈسم سا ڈاکٹر ہوتا اُس سے دوستی کر لیتی پھر خوشی خوشی اسکے چکر میں ہسپتال کے چکر لگاتی رہتی اسی خیال کے ساتھ مجھے اپنی کہی بات یاد آگئ جو میں نے کچھ دنوں قبل ہی Shaji Haider سے کہا تھا "کاش آپ ڈاکٹر ہوتے" اور انہوں نے پوچھا تھا "اچھا پھر کیا علاج کروانا تھا آپکو مجھ سے"۔

میں تب کہہ ہی نہیں پائی تھی کہ "دل کا" ۔۔۔

اچھا ہی ہوا نہیں کہا ورنہ اُن سے بعید بھی نہیں تھا وہ کہہ دیتے کہ جبکے مجھے لگتا ہے آپکو دماغ کے علاج کی ضرورت ہے ۔۔۔ اس سوچ کے ساتھ جو مسکراہٹ میرے چہرے پر تھی گاڑی ڈرائیو کرتی آپی سے نا چھپ سکی ۔۔۔

"کیا ہوا کیا سوچ سوچ کر اپنے آپ میں مسکرا رہی ہو"

کیا بتاتی ایک شخص کا خیال مجھے دنیا سے بے خبر کردیتا ہے کبھی اسی طرح میں مسکرانے لگتی ہوں ، کبھی رونے لگتی ہوں تو کبھی خود سے باتیں کرنے لگتی ہوں ،،، میں اُسے جو یہ کیفیت بتاتی تو وہ واقعی مجھے واپس ہسپتال لے جاتی میرے دماغ کے علاج کیلئے۔۔۔

خیر یہ بات آپی سے شئیر کی جا بھی نہیں سکتی تھی۔۔

اسلئے جھوٹ بول دیا گھر جانے کی خوشی میں مسکرا رہی ہوں اتنے دنوں کے بعد رہائی جع ملی۔۔۔

اچھا لگ نہیں رہا بات یہی ہے ۔ اسے میری بات پر یقین نہیں تھا۔

کیوں ؟ میرے کیوں کو اس نے نظر انداز کر دیا

افشاں مجھے تم سے اِک بات کہنا ہے اس امید کے ساتھ کہ تم میری بات مان لوگی

ہاں کہوں میرے بس میں ہوا تو ضرور ،

تمہارے بس میں ہے

اچھا وہ کیا ہے

اُس نے میری طرف دیکھ کر کہا "امی سے بات کر لو ایک بار "

میں چپ ہوگئی میری روح جو ابھی کسی کے یاد کی خوشی سے مسرور تھی یکدم بدل گئ میرے چہرے سے خوشی کے رنگ اڑ گئے اور کرب کی اذیت شاید میرے چہرے پر دکھائی دینے لگی تھی

تب ہی آپی کی آواز پھر سنائی دی میرا مقصد تمہیں ہرٹ کرنا نہیں ہے افشاں ،،، پر بات کرلونا ایک بار پلیز وہ بہت بار فون کر چکی ہیں کامران نے مجھے سختی سے منع کیا تھا اسلئے میں نے ہسپتال میں تم سے کچھ نہیں کہا۔۔۔

وہ پریشان ہورہی تھیں تمہارے لیے ۔۔۔

آپی کی بات جیسے میرے کانوں میں چبھ گئ

میں نے آپی کی بات دہرائی امی پریشان ہو رہی تھیں۔۔۔ میرےلۓ ۔۔۔تم یہی کہ رہی ہو نا ۔۔میرے لۓ۔۔۔ میرے دل نے اس لمحے جو دکھ محسوس کیا اس پر مجھے رونا نہیں آیا بلکے میرا دل چاہا قہقہے لگاؤں کہ اس دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ اور اعلیٰ پائے کا مزاق لگ رہا تھا مجھے

اور میں ہنسنے ہی لگی تھی

تب ہی آپی نے چِڑ کر پوچھا تم ہنس کیوں رہی ہو اس میں اس طرح ہنسنے والی کیا بات ہے۔۔۔

کیا تم نہیں جانتی میں کیوں ہنس رہی ہوں۔۔۔ کیا تمہیں نہیں لگتا مجھے قہقہے ہی لگانے چاہیئیں اس بات پر ۔۔۔

افشاں پلیز ہ ماں ہیں وہ میری !

ہاں اور میری نہیں ہیں۔۔!

میری اس بات پر وہ بلکل خاموش ہوگئی

ہم دونوں ہی خاموش ہوگئے۔۔۔

اس خاموشی کے ساتھ ہم گھر پہنچ گئے میرے گھر۔ میرا ذاتی گھر!

Continued...