webnovel

تیرے پیار میں تیری چاہ میں

قسط 1…..

ہال کمرے میں اسوقت اتنی خاموشی تھی کہ سوئی بھی گرتی تو آواز صاف سنائی دیتی....

اس خاموشی کو موبائل کی چنگاڑتی ہوئی آواز نے توڑا....ڈرائینگ روم کے عالیشان سنگل صوفے پر بیٹھے "اسفند یار خان" بری طرح چونکے….پھر ایک نطر سامنے تھری سیٹر صوفے پر ایک شان سے بیٹھے "سید وہاج عالم" پر ڈالی(جو انھی کی طرف ہی متوجہ تھے) پھر سامنے پڑے موبائل کو آن کر کے کان سے لگایا (جس پر میری کی کال تھی….)

"سر... عنیزہ میم آ گئی ہیں اور آپ کا پوچھ رہی ہیں....."میری نے اطلاع دی…

"ہمممم..…آپ ان سے کھانے کا پوچھیں ہم آ رہے ہیں…"انھوں نے ہنکارہ بھرتے ہوئے کہا….اور ایک نظر پھر سامنے بیٹھے شخص پر ڈالی اور فون رکھ دیا.....

"کیا وہ آ گئی…؟" سید وہاج عالم نے پوچھا…..

"جی.... وہ میرا انتظار کر رہی ہے.…اب ہمیں چلنا چاہیے اجازت دیں..."وہ ان کی بات کا مختصر جواب دیتے ہوئے بولے..... اور قریب بیٹھے اپنے بیٹے "شہریار خان"(جو کسی سوچ میں گم تھا…) کو چلنے کا اشارہ کرتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے…

"اچھا…اللہ سائیں کے حوالے…. ہم بہت جلد آئیں گے اپنی امانت واپس لینے....." وہ اسفند یار خان کے گلے ملتے ہوئے بولے.... جبکہ ان کی بات سنتے دونوں نفوس ایک بار پھر چونکے تھے.... پھر باہر کی طرف چل دیئے تا کہ گھر جلدی پہنچ سکیں… کیونکہ ان کی لاڈلی بیٹی جس میں ان کی جان بستی تھی ان کا انتظار کر رہی تھی...

*************

وہ بےچینی سے ادھر سے ادھر ٹہل رہی تھی..سامنے رکھا کھانا ویسے ہی پڑا تھا جیسے میری رکھ کر گئی تھی...

"میم پلیز کھانا کھا لیں….سر کا آرڈر تھا کہ آپ کو کھانا ضرور کھلا دوں…..ان کی ایک اہم میٹنگ تھی جس میں ٹائم لگ سکتا ہے... "میری نے منت بھرے لہجے میں بولی.... "میں نے کہا نا کہ مجھے کھانا نہیں کھانا….پھر تم کیوں دو منٹ بعد پھر شروع ہو جاتی ہو..... نکلو یہاں سے تم...."وہ غصے سے بولی….."ارے. ے. ے. ے کیا ہو گیا…..ہماری ڈول اتنے غصے میں کیوں ہے؟…."

بابا جان لاؤنج کے دروازے سے اندر داخل ہوتے ہوئے مسکاتے لہجے میں بولے.... وہ پیچھے گھومی اور خفگی بھری گھوری ڈال کر لاؤنج میں پڑے صوفوں میں سے ایک پر بیٹھ گئ….مطلب کہ اپنی طرف سے ناراضگی کا صاف اعلان کیا گیا تھا….."اچھااااااا... تو بابا کی جان ناراض ہے….تو اب آپ خود بتا دیں کہ بابا اپنی ڈول کو منانے کیلئے کیا کریں…."اس کی ناراضگی دیکھتے وہ مسکراتے ہوئے اس کی طرف بڑھے…جو پھولے منہ سے بیٹھی انھیں پوری طرح اگنور کر رہی تھی....

"اوکے… سوری... ہم جلدی آ جاتے لیکن ٹریفک بہت تھی جس کی وجہ سے ہمیں آتے ہوئے دیر ہو گئی...."وہ اپنے کے کان پکڑتے ہوئے شرارتی سے انداز میں بولے.... "اوکے.. بٹ ایک شرط پر... آپ مجھے ابھی باہر گھمانے لے کر جائیں گے اور ہم ڈنر بھی باہر کریں گے…."وہ مسکراتے ہوئے بولی"اوکے ڈن.."

وہ جلدی سے بولے کہیں دوبارہ ناراض نہ ہو جائے…."یےےےے آئی لو یو باباجان.... "

وہ کھلکھلاتے ہوئے ان کے گلے لگ گئی...

وہ ایسی ہی تھی جلدی ناراض ہو جانے والی اور جلدی مان جانے والی…"اسفندیارخان "کی سب سے چھوٹی اور لاڈلی بیٹی "عنیزہ خان " جس میں "خان ولا" میں بسنے والے ہر شخص کی جان تھی.....

پانچ فٹ چار انچ لمبا قد,ہیزل گرین آنکھیں جن میں ہر وقت ایک شرارتی چمک ہوتی ہے,سنہری رنگت, گالوں میں پڑتے ڈمپل اور چہرے سے ٹپکتی معصومیت جو اس کی خوبصورتی کو چار چاند لگاتی ہے..... بیشک وہ پر کشش لڑکی ہے …اتنا لاڈ پیار ملنے کے باوجود وہ نہایت سلجھی ہوئی اور حساس تربیت کی مالک ہے…جو اپنی معصومیت سے کسی کا بھی دل آسانی سے جیت لیتی ہے.....

لیکن جو جتنے لاڈ اٹھاتا ہے اسے اتنی ہی آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے.....

اور شاید اسے بھی آزمایا جانا تھا…..

**************

"ارمیز ولی خان" کا تعلق پشاور کے ایک گاؤں سے تھا..ان کا شمار جدی پشتی وڈیروں میں ہوتا تھا…انہیں اپنے والد کی وفات کے بعد گدی پر بٹھایا گیا جس کا انھوں نے سہی معنوں میں حق ادا کیا…..

وہ ایک رعب و دبدبے والے منصف انسان تھے.. ان کے انڈر بارہ گاؤں آتے تھے کسی کی اتنی ہمت نہ تھی کہ ان کا حکم نہ مانے...بظاہر وہ بارعب نطر آتے تھے لیکن وہ نہایت نرم دل انسان تھے….

ان کی شادی بچپن کی منگ "فاطمہ بیگم"جو کہ ان کی چچا زاد تھی سے ہوئی…دونوں نے ایک پرسکون زندگی گزاری.... فاطمہ بیگم بھی ایک سلجھی ہوئی اور ہر بات ماننے والی خاتون تھیں…انھوں نے ہر مشکل وقت میں اپنے شوہر کا ساتھ دیا.....

"ارمیز ولی خان" کے دو بیٹے ہیں .... بڑا بیٹا "اسفند یار خان" جبکہ چھوٹا بیٹا "بہروز علی خان"…

ان کے دونوں بیٹے نہایت ہی سلجھے ہوئے اور ان کا ہر حکم ماننے والے ثابت ہوئے کیونکہ ان کی تربیت "فاطمہ بیگم" کے ہاتھوں ہوئی جنہوں نے اپنے بچوں کو عورت کی عزت کرنا گھٹی میں پائی تھی...

"بہروز خان" شوخ طبیعت کا مالک ہے…اپنے بھائی کا لاڈلا….وہ ایک نیورو سرجن ہے جو گاؤں میں اپنا اسپتال چلا رہا ہے..... اس کی شادی اس کی پسند کی لڑکی "سمارہ بیگم" دے ہوئی..جو بہروز کی یونیورسٹی فیلو تھی....ان کے دو ہی بچے ہیں..

بڑا بیٹا "عالیان خان" جبکہ چھوٹی بیٹی "آرزو خان" ….عالیان آرمی میں جبکہ آرزو بی-ایس کیمسٹری کے آخری سال میں ہے….

اسفند یار خان کو اگر یوسف ثانی کہا جائے تو غلط نہ ہو گا….وہ نہایت وجیہہ اور پرکشش پرسنیلٹی کے مالک ہیں ….وہ بزنس کی دنیا میں مغرور شہزادے کے نام سے مشہور ہیں..وہ جتنے وجیہہ ہیں اس سے کئی زیادہ غصے کے تیز ہیں..یہ نہیں کہ وہ ہر وقت غصے میں رہتے ہیں وہ ایک سوفٹ نیچر کے مالک ہیں لیکن انھیں غلط بات برداشت نہیں ہوتی….

ان کی شادی ارمیز خان نے اپنے چچا زاد بھائی کی بیٹی"سرینہ بیگم"سے کی جو ایک فرمابردار بیوی اور بہو ثابت ہوئی اور ہر دکھ سکھ میں ان کا ساتھ دیا.... شادی کے دو سال بعد ان کے ہاں "عریبہ خان" نے جنم لیا.... وہ ایک شرمیلی اور سلجھی ہوئی بچی ہے…..اسفند یار خان بیٹی کے ساتھ بہت خوش رہتے تھے…اس کی شادی اسفند خان نے اپنےچچا زاد کے بیٹے "زوار خان " سے کی…..

عریبہ خان کی پیدائش کےچار سال بعد "شہریار خان " پیدا ہوئے اور اس کے دو سال بعد "عنیزہ خان "نے ان کی فیملی کو مکمل کیا....

شہریار خان اپنے باپ کی کاپی لیکن مزاجاً اپنے چچا پر تھا… لیکن حقیقتاً ایک ذمہ دار شخصیت کا مالک ہے جو اپنے باپ کے ساتھ بزنس کو عروج پر پہنچا رہا ہے....

اور "عنیزہ خان" ایف-ایس-سی کے دوسرے سال میں ہے...

وہ سب خان ولا میں ایک نہایت پرسکون زندگی گزار رہے ہیں….لیکن وقت ایک جیسا تو نہیں رہتا ناااا....

اور ان کی پر سکون زندگی میں پہلا پتھر ارتعاش پیدا کر چکا ہے.... ایک بات یاد رہے کہ

آزمائش بھی اس پر آتی ہے جو اللہ کا لاڈلہ ہوتا ہے....

********

وہ آج کافی دنوں بعد ڈیرے پر آیا تھا.... آفس کی مصروفیت سے آج فرصت ملی تھی تو اس نے سوچا کہ ڈیرے کا چکر لگا لیا جائے اور زمینوں کو بھی دیکھ لیا جائے...

وہ زمینوں کا جائزہ لے واپس ڈیرے پر آیا تو مزاروں نے درخت کے نیچے چارپائی اور لسی کا انتظام کر رکھا تھا... وہ ماتھے سے پسینہ پونچھتا چارپائی پر بیٹھ گیا.... مزارعے سے لسی کا گلاس لے کر پیا اور وہیں لیٹ گیا...

درخت کی ٹھنڈی چھاؤں میں سکون محسوس کر تے ہوئے اسے کسی کی بڑی شدت سے یاد آئی...

پھر کچھ یاد آنے پر جیب سے موبائل نکال کر گیلری آن کی اور اس میں سے ایک تصویر کو اوپن کیا...

آج بڑے دنوں بعد اس نے اس تصویر کو کھولا تھا….

"مائی لٹل اینجل..... " وہ تصویر کو زوم کر کے ہر اینگل سے دیکھتے ہوئے سرگوشی میں بولا…..اور دھیرے سے اپنے لب اس تصویر پر رکھ دیئے…..

"جلدی آ جاؤ اپنے شاہ کے پاس…..تمہارا شاہ تمہارے بنا ادھورا ہے... " پھر دھیرے سے سرگوشی میں بولا اور موبائل کو اپنے دل کے مقام پر رکھ کر آنکھیں موند لیں....

وہ مسکرا رہا تھا…ہاں آج وہ بڑے عرصے بعد مسکرا رہا تھا.... آج بہت عرصے بعد اس کے گالوں میں گڑھے نمودار ہوئے تھے... جن کو دیکھنے کیلئے ایک جہاں منتظر رہتا تھا…..

اور اس سب کی وجہ ایک دفعہ پھر وہی ہستی بنی تھی..... ہاں وہی ہستی جو اس کی دھڑکنوں کے چلنے کا سبب تھی.......

************

"ٹھک..ٹھک...ٹھک.... " وہ ابھی شاور لے کر نکلی ہی تھی کہ دروازے پردستک ہوئی…..

آج اسے لاہور آئے ہوئے ہفتہ ہو گیا تھا…اور ابھی کچھ دیر پہلے وہ شاپنگ سے گھر لوٹی تھی….

اور اب شاور لے کر نکلی ہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی….

"ضرور شیری بھائی ہوں گے.... "وہ سوچتی ہوئی دروازہ کھولنے لگی.....

"میم….اسفند سر آپ کو ڈرائینگ روم میں بلا رہے ہیں…."

دروازہ کھلتے ہی میری نے پیغام پہنچایا.....

"واٹ....."اس نے ایک نظر وال کلاک پر ڈالی جو رات کے بارہ بجا رہی تھی..... "خیریت…؟ اس وقت... ؟…"وہ حیران ہوتے ہوئے بولی….."آئی ڈونٹ نو میم…سر نے انٹرکام کیا تھا اور بس آپ کو جلدی بولانے کا بولا تھا…."

"اوکے… چلو.."وہ ایک نظر اپنے کپڑوں پر ڈالی,(وہ اسوقت بلیک فل آرم ٹی شرٹ اور بلیک ہی ٹراوزر میں ملبوس تھی....)اوراسے چلنے کا بولتی زینے اترنے لگی...

***************

"بابا جان آپ نے بلایا...."وہ اپنے دیہان بولتے ہوئے ڈرائینگ روم میں داخل ہوئی لیکن وہاں بیٹھے بڑی بڑی مونچھوں والے اور بارعب اشخاص کو دیکھ کر وہ وہیں رک گئی....وہ حقیقتاً ان بارعب لوگوں کو دیکھ کر خوفزدہ ہوئی تھی جن کی نظر اسی پر تھی..... جبکہ ان میں سے کئی لوگوں کی نظروں میں اسے دیکھ کر پیار اور کچھ لوگوں کی نظروں میں اس کے لباس کو دیکھ کر ناگواری آئی تھی...

تبھی "اسفندیارخان "کی نظر بھی اس پر پڑی جو ہراساں نظروں سے سب کو دیکھ رہی تھی…وہ اس کی طرف بڑھے…..

"آؤ بیٹا….ان سے ملو یہ ہیں سید وہاج عالم آپ کے دادا کے بیسٹ فرینڈ…اور آغا جان یہ ہے ہماری بیٹی عنیزہ خان….."اسفند خان نے اس کے خوف کو کم کرنے کی خاطر اپنے آغوش میں لیا….اور اس کا وہاں بیٹھی بارعب شخصیت سے تعارف کروایا... جو آنکھوں میں شفقت لئیے اسے دیکھ رہے تھے…..

"اسلام وعلیکم..…"اس نے دھیمی آواز سے سب کو سلام کیا….

"وعلیکم السلام...بابا ہمارے پاس آؤ….."وہ پیار اور محبت سے مسکراتے ہوئے اس سے مخاطب ہوئے….وہ بھی اس کی جھجھک محسوس کر چکے تھے….

اس نے ہراساں نظروں سے باباجان کی طرف دیکھا….انھوں نے سر اثبات میں ہلایا.....

"ہمارا بچہ کیسا ہے.... ؟" وہ اس کے بیٹھتے ہی اس کے گرد اپنی بازو کا حصار بناتے ہوئے اس کا حال پوچھنے لگے…..

"آغا جان ہمیں 1 گھنٹے میں واپسی کیلئے نکلنا ہے…..آپ کو پتہ تو ہے گاؤں کے حالات کا... "

وہ کچھ بولتی اس سے پہلے ہی ایک اور بارعب لیکن شاندار پرسنیلٹی والا شخص کمرے میں داخل ہوا....

آغا جان نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے اسفندیارخان کی طرف دیکھا جو پریشان نظروں سے انہیں ہی دیکھ رہے تھے….جبکہ شیری اٹھ کھڑا ہوا…..

"آغا جان پلیز ہمیں تھوڑا ٹائم دے دیں…..عینی ہمارے بغیر نہیں رہ..."

ابھی اس کی بات منہ میں ہی تھی کہ باباجان نے ہاتھ اٹھا کر ادے خاموش رہنے کا اشارہ کیا.... "آغا جان آپ اپنی امانت لے جا سکتے ہیں….ہماری طرف سے اجازت ہے.... " وہ سپاٹ چہرے سے بولے....

"ہممممم... ہمیں یہی امید تھی..... اسفندیارخان اپنی زبان سے نہیں پھرے گا.. ... "

آغاجان مسکراتے ہوئے بولے…

جبکہ عنیزہ حیران پریشان سی اس سچویشن کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی….

"چلو بابا اپنے باباجان سے مل لو پھر اپنی حویلی چلتے ہیں....وہاں سب آپ کا بہت بےصبری سے انتظار کر رہے ہیں..... "آغا جان عنیزہ سے مخاطب ہوئے…..

اور وہ جو حیران سی بیٹھی تھی آغا جان کی بات سنتے ہی ان کا حصار جھٹک کر اٹھی تھی....

"واٹ... آپ کا دماغ ٹھیک ہے.... ؟ میں کیوں جاؤں گی آپ لوگوں کے ساتھ..... بابا جان یہ کیا ہو رہا ہے.... کون ہیں یہ لوگ.... اور مجھے کیوں لے کر جانے کی باتیں کر رہے ہیں….."

وہ ایک ساتھ سب سے مخاطب ہوئی تھی...

اور وہاں بیٹھے لوگ اس کی بدتمیزی دیکھ کر آگ بگولا ہوئے تھے..... اگر آغا جان کا حکم نا ہوتا تو وہ ابھی تک اس نازک سی لڑکی کا حشر بگاڑ چکے ہوتے...

"ہم بتاتے ہیں…..کیونکہ تم ہمارے سب سے چھوٹے بیٹے کی اکلوتی اولاد ہو….شاہ خاندان کے سب سے لاڈلے اور چھوٹے بیٹے کی اکلوتی نشانی عنیزہ اذلان شاہ ہو….اور سید وہاج عالم کی سب سے چھوٹی پوتی.... "

آغا جان بولے.... جبکہ وہ ساکت سی نفی میں سر ہلانے لگی...

"نو…نو... نو... ی.... یہ.. یہ جج.. جھوٹ ہے.... آپ جھوٹ بول رہے ہیں…..ہے نا باباجان یہ جھوٹ ہے نا... میں آپ کی بیٹی ہوں نااااااا"

وہ بابا جان کے منہ پر پیار سے ہاتھ رکھتے پر امید لہجے میں بولی جیسے ابھی باباجان ہنس دیں گے اور بولیں گے کہ یہ تو مذاق تھا... مگر ان کی خاموشی اسے الجھن میں مبتلا کر رہی تھی.....

"بھائی -بھائی آپ بتائیں نہ کہ یہ جھوٹ ہے یہ لوگ بول رہے ہیں..... بتائیں نااااااا"

وہ اب شیری کی طرف پلٹی تھی....

"یہ سچ بول رہے ہیں…." وہ آنکھوں میں آئے آنسو صاف کرتے ہوئے بولا....

"آپ سب کیوں جھوٹ بول رہے ہیں....اور آپ لوگ جائیں یہاں سے کیوں کھڑے ہیں یہاں..... میرا آپ لوگوں سے کوئی رشتہ نہیں...میرے بابا ضرور کسی بات پر ناراض ہوں گے اسی لئے وہ مجھ سے بات نہیں کر رہے....میں اپنے بابا کو منا لوں گی...آپ لوگ جائیں…."وہ چلاتے ہوئے بولی..... پتہ نہیں اسے ایک امید سی تھی کہ یہ سب جھوٹ ہے.....

"عنیزہ شاہ آپ کو سمجھ نہیں آئی بات آپ کا ہم سے کوئی تعلق نہیں آپ کے اصل رشتے یہ ہیں اب ہم مزید کوئی بات نہیں سنیں گے...چلی جائیں ان کے ساتھ..... "وہ سرد لہجے میں بولے... انھیں پتہ تھا کہ اگر آ ج وہ نرم پڑ گئے تو وہ کبھی اپنی ڈول کو خود سے الگ نہیں کر پائیں گے…..

"یہ لوگ میرے کچھ نہیں لگتے میرا سب کچھ آپ ہیں…..سمجھ آئی آپ کو...آپ کو پتہ نااا مجھے بڑی مونچھوں والے لوگوں سے ڈر لگتا... تو آپ کیسے مجھے ان لوگوں کے ساتھ بھیج سکتے ہیں…مجھے کہیں نہیں جانا…..مما.. آپ... بھائی... آ پی ہی میری فیملی ہے..... "

وہ بری طرح روتے ہوئے ہچکیوں سے اپنے بابا کے گلے لگتے ہوئے بول رہی تھی...لیکن باباجان آج نرم نہیں پڑنا چاہتے تھے اسی لئیے اسے خود سے الگ کرتے آغا جان کے پاس لے گئے....

"یہ رہی آپ کی امانت آپ اسے لے جائیں اس سے پہلے کہ میں اپنا ضبط کھو دوں... .."

وہ اسے آغا جان کی گرفت میں دیتے ہوئے بولے.....

اور خود رخ پھیر کر کھڑے ہو گئے....

آغا جان نے اپنے پاس کھڑے اپنے بیٹے کو چلنے کا اشارہ کیا جو عنیزہ کو پکڑ کر کھڑا تھا...

"بابا نہیں...آپ کی ڈول آپ کے بغیر مر جائے گی... بھائی..... باباجان.... مما.... مجھے نہیں جانا.... "

وہ پنے تایا کی گرفت میں بری طرح پھڑ پھڑا رہی تھی لیکن آج اس کی سننے والا کوئی نہیں تھا...

وہ واسطے دیتی تڑپتی رہی لیکن وہ اسے لے گئے... اس کو اس کے باباجان سے جدا کر کے لے گئے.....

************

وہ جا چکی تھی... ہاں وہ ہمیشہ کیلئے اپنے باباجان کو چھوڑ کر جا چکی تھی... ان کے دل کا ٹکڑا ان سے الگ ہو چکا تھا لیکن وہ زندہ تھے....

اور آج "اسفندیارخان"جو ایک جہاں فتح کر چکا تھا..جو کبھی رویا نہیں تھا...

وہ آج بچوں کی طرح بری طرح پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا..... اور آج صرف وہی نہیں "شہریار خان"وہ بھی تو رو رہا تھا اپنی دوست اپنی بہن کی جدائی میں…..جس کو تنگ کئے بغیر اس کا دن نہیں گزرتا تھا وہ ہمیشہ کیلئے چلی گئی تھی...

اور وہیں لان میں لاؤنج کے دروازے کے پاس "سرینہ بیگم" بھی زمین پر بیٹھی دھاڑیں مار مار کر رو رہی تھیں..... ان کی بھی جان بستی تھی اس میں…..ہمیشہ اپنے کلیجے سے ہی تو لگا کر رکھا تھا اسے...اور آج وہ چلی گئی.... .

آج تو اس گھر کے نوکر بھی آنسو بہا رہے تھے..... جن کی مدد کیلئے وہ ہمیشہ کچھ نہ کچھ کرتی رہتی تھی.....

اور آج تو پورا "خان ولا" ماتم کنا تھا... کیونکہ اب یہاں کسی کی آوازیں نہیں گونجنی تھیں....

وہ سب کی مسکراہٹ چھین کر لے گئ تھی.... اب باقی ویرانہ تھا جو"خان ولا" کے ہر مکین کے اندر بس چکا تھا......

***************