webnovel

School joining days

جلدی اٹھو بیٹا صبح کے چار بج چکے ہیں تمہارے ابا کو معلوم ہوا کہ تم ابھی تک سو رہی ہو تو وہ تم کو مارے گے

حجاب فاطمہ کی امی نے اپنی بیٹی سے کہا

ماں کی آواز سن کر حجاب فاطمہ بوکھلا کر اٹھی۔کیونکہ 5 سال کی فاطمہ کو اپنے والد سے بہت ڈرتی تھی۔

جلدی سے اپنے سب گھر والوں کے بستر تہہ کر کے اسٹور میں رکھ آ اور وضو کر کے میرے ساتھ نماز پڑھنے کے لئے آجا۔(ماں نے حکم دیا)۔

حجاب فاطمہ اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے بمشکل سب کے بستر تہہ کر کے باہر آتی ہے تو دادی کی آواز سن کر بھاگ کے دادی کے پاس جاتی ۔

اے چھوری! پانی تو دے اور میری وہیل چیئر میرے پاس کر دے

حجاب فاطمہ ابھی تک بستر نہیں تہہ کئے کیا کتنی دیر لگائے گی ۔ باہر بر آمدے سے ماں کی آواز آتی ہے۔

جلدی سے وہ وضو کر کے ماں کے ساتھ نماز پڑھتی ہے پھر گھر والو کو امی کے مل کے ناشتہ کروا کے اپناناشتہ باندھ کر پھر امی کے ساتھ کھیتوں میں لی جاتی ہے ۔وہاں وہ 11 بجے تک کام کرتے کبھی اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے کھیتوں کھیتوں کو کھودتی کبھی پانی بھر بھر کر ماں کو لا کےدیتی ۔چھوٹی سی جان بری طرح تھک جاتی اسی طرح وہ 1 بجے تک کام کرتے ۔۔پھر گھر آتے تو راستے میں حجاب فاطمہ کو روز ۔ کچھ لڑکے بیگ اٹھا کر آتے ہوئے نظر آتے۔

حجاب فاطمہ : امی یہ روز ایک ہی کپڑوں میں کیا اٹھا کر لے کر جاتے ہیں ۔

امی :یہ اسکول جاتے ہیں ۔

حجاب فاطمہ: اسکول کون سی جگہ ہوتی ؟

امی: اسکول میں بچے بہت ساری کتابیں پڑھتے ہیں۔

حجاب فاطمہ: امی میں بھی بہت ساری کتابیں پڑھوں گی۔میں بھی اسکول جاؤ گی۔

امی : شششش خاموش ہو جا اگر یہاں کسی سے سن لیا کہ تو اسکول جانے کی ضد کر رہی ہے تو تیرے ابا کو بتادیں گے ۔اور تیرے ابا تجھے ذندہ دفن کر دے گا۔

حجاب فاطمہ امی کی بات سن کر سہم جاتی ہے۔

اور وہ چپ ہوجاتی ۔

آگئی منہ کالا کر کے بتا آج اتنی دیر آنے میں کیوں لگی کس یار کے ساتھ تھی۔ روز سے ایک تھپڑ منہ پر مار کر بولتا ہے اور بال پکڑ کر دیوار کے ساتھ امی کو لگا دیتا ہے۔

حجاب فاطمہ اپنی امی کے ساتھ اپنے باپ کا گھر پہنچتے ہی یہ رویہ دیکھ کر سہم جاتی اور بھاگ کر کمرہ میں چھپ جاتی ۔

باہر سے مار کی اور امی کی چیخوںکی آواز اس کے کانوں میں پڑتی ہے ۔

عشاء کی نماز کے بعد اس کا باپ عیاشی کے لیے باہر چلا جاتا ہے کمرہ میں صرف حجاب فاطمہ اور امی ہوتے

حجاب فاطمہ: اما ابا تجھے اتنا کیونں مارتا ہے ؟

امی: چھوٹی بیٹی کو کیا بتاتی بس خاموش رہی ۔ ماں کا دل تھاکہ بیٹی کو بتائے کہ اس باپ شہر کے بڑے اسکول سے پڑھ کر آیا ہے۔ اور وہ چاہتا تھا ۔ کہ اس کی بیوی بھی پڑھیں لکھی ہو لیکن اس کے دادا نے ہماری شادی زبردستی کر دی ۔

اور دوسری وجہ یہ کہ میں نے پہلی اولاد ایک بیٹی کی شکل میں دی ۔

امی پوری رات سو نہیں پاتی وہ اپنی بیٹی کے مستقبل کے بارے میں فکر مند رہتی تھی۔اور آج حجاب فاطمہ کے اسکول جانے کی بات بھی اس کے دل پر لگی تھی ۔وہ فیصلہ کرتی ہے کہ کچھ بھی ہو جائے وہ اپنی بیٹی کو پڑھائے گی وہ اپنی بیٹی کا حال اپنے جیسا نہیں ہونے دیناچاہتی تھی۔

صبح ہوتے ہی سکینہ اپنی بیٹی کو لے کر اسکول داخلہ کروا آتی ہے ۔

واپس جب آتی ہے تو حجاب کا باپ کوڑا لے کر کھڑا ہوتا ہے ۔ حجاب فاطمہ اور اس کی امی کو مارنا شروع کر دیتا ہے۔

بول اسکول جائے گی ۔ ہمارے خاندان کا نام ڈبوئے گی اپنے باپ کے مقابلے میں کھڑی ہو گئی ۔

ننھی فاطمہ کوڑوں کو برداشت نہیں کر پاتی اور بے ہوش ہوجاتی ہے ۔

ماں کی بھی حالت بدتر ہو جاتی ۔

ماں اپنی بیٹی کو پڑھانے کے لیے آدھی رات کو لے کر گھر چھوڑ کر شہر بھاگ آتی ہیں ۔

ان کے لیے شہر میں کہی بھی رہنے کا ٹھکانہ نہیں ہوتا وہ لوگوں سے بھیک مانگنے لگ جاتی ہے کچھ پیسے جمع کر کے ایک جھونپڑی تیار کر کے اس میں رہنے لگ جاتی ہے۔

اور اپنی بیٹی کاایک اسکول میں داخلہ کر وادیتی ہیں ۔

آج حجاب فاطمہ کے اسکول میں پہلا دن ہے ۔وہاں اسکول میں ٹیچر کی محبت اور پیار بہت پسند آتا لیکن بریک میں اس کو اسکول کے بچے بہت تنگ کیا کرتے تھے۔۔لیکن اسکے باپ اور گاؤں کے ماحول سے اس کے لئے یہ بچو کا پریشان کرنا اس کو سکون دیتا تھا۔حجاب فاطمہ کے لئے اب اسکول جانے میں کوئی پریشانی نہیں تھی ۔۔

وہ خوش تھی کہ وہ اسکول پڑھنے جانے لگی اور سکینہ کی بھی زندگی سکون میں آگئی تھی۔

حصہ اول ختم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔