webnovel

Unseen Bonds: A tale of choices and Redemption.

Realistic Fiction
Laufend · 647 Ansichten
  • 1 Kaps
    Inhalt
  • Bewertungen
  • N/A
    UNTERSTÜTZEN

What is Unseen Bonds: A tale of choices and Redemption.

Lesen Sie den Roman Unseen Bonds: A tale of choices and Redemption. des Autors Kgomotso_Nyathi, veröffentlicht auf WebNovel....

Zusammenfassung

Das könnte Ihnen auch gefallen

حدیں پار کرنے والی وہ شہزادی جس کی کتاب پہلی صلیبی جنگ کی اہم شہادت ۔

نے اس سال اپریل کے مہینے میں مسیحی تہوار ایسٹر کے موقع پر فیصلہ کیا کہ وہ 40 روز تک صرف پانی اور باسی روٹی پر گزارا کریں گے، سروں میں خاک ڈال کر رہیں گے، زمین پر سوئیں گے اور اس دوران سب صرف انتہائی سادہ اور کھردرے موٹے کپڑے پہنیں گے۔ ایک خانقاہ میں راہبوں کے کسی خاندان کا اس طرح رہنا تو کسی بھی زمانے میں عام بات ہے، لیکن یہ کسی خانقاہ کا منظر تھا اور نہ ہی اس خاندان کے لوگ راہب ،تصویر کا ذریعہDEA / G. DAGLI ORTI/GETTY IMAGES ،تصویر کا کیپشن شہنشاہ الیکسیوس: سنہ 1081 میں حکمران بننے کے بعد الیکسیوس تقریباً چالیس برس تک اور پھر ان کے بیٹے جان 20 برس تک بازنطینی سلطنت کے شہنشاہ رہے۔ شہزادی اینا نے 15 جلدوں پر مشتمل اپنی کتاب 'الیکسی ایڈ' میں اپنے والد کے دور کا تفصیلی احوال پیش کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب شہزادی کی عمر 7 برس تھی بادشاہ سٹیفن نے ان سے سیکس کی کوشش کی جس کے نتیجے میں وہ ہمیشہ کے لیے بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو گئی تھیں۔ اس کے بعد بھی ان کی پوری زندگی زیادتی کی مثال بنی رہی جس میں تاریخ پڑھیں تو ان کے والد ان کے شوہر کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔ شہزادی سیمیون کی شادی کا یہ واقعہ شہزادی اینا کرومنینے کی پیدائش سے تقریباً دو صدیوں بعد کا ہے۔ اینا کومنینے سات برس کی تھی جب وہ اپنے ہونے والے شوہر کے گھر بھیج دی گئی تھی۔ ان کے منگیتر کانسٹنٹائین ڈوکاس تھے جو ایک سابق شہنشاہ مائیکل ہفتم کے بیٹے تھے۔ یہ منگنی اینا کی پیدائش کے کچھ ہی عرصے بعد ہوئی تھی۔ دونوں بچوں کو منگنی کے وقت بازنطینی عوام کے سامنے پیش کیا گیا اور سب کی نظروں میں وہ مستقبل کے شہنشاہ اور ملکہ تھے۔ لیکن یہ صورتحال دیر تک قائم نہیں رہ سکی کیونکہ جب اینا چار برس کی تھی ان کے والدین ہاں بیٹے کی پیدائش ہو گئی۔ اس کے علاوہ کانسٹنٹائین کا بھی جلد انتقال ہو گیا۔ اینا 12 برس کی عمر میں اپنے گھر واپس آ گئیں۔ یہیں سے، شہزادی کی طرف سے تاریخ لکھنے کے فیصلے کے بعد، کہانی میں دلچسپی کا مرکز نصف صدی سے زیادہ عرصے تک دنیا کی ایک بڑی سلطنت کے شہنشاہ رہنے والے دو باپ بیٹے نہیں رہتے بلکہ تاریخ لکھنے کی جرات کرنے والی ایک شہزادی بن جاتی ہے۔ شہزادی جس کی اس معاشرے میں ذمہ داری زمانے کے تقاضوں کے مطابق لڑکی ہونے کے ناطے صرف شادی کرنا اور نبھانا ہونی چاہیے تھی۔ سنہ 1081 میں حکمران بننے کے بعد الیکسیوس تقریباً 40 برس تک اور پھر ان کے بیٹے جان 20 برس تک بازنطینی سلطنت کے شہنشاہ رہے۔ شہزادی اینا نے 15 جلدوں پر مشتمل اپنی کتاب ’الیکسی ایڈ‘ میں اپنے والد کے دور کا تفصیلی احوال پیش کیا ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے پہلی صلیبی جنگ کا بھی تفصیلی ذکر کیا ہے اور اسے اس جنگ کی ایک اہم دستاویز سمجھا جاتا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ شہزادی اینا کے والد نے سلطنت کی مشرقی سرحدوں پر سلجوکوں کی صورت میں پیدا ہونے والے خطرے سے نمٹنے کے لیے پاپائے روم سے مدد طلب کی تھی جس کے جواب میں پاہائے روم نے صلیبی جنگ کا اعلان کر دیا۔ یہ بات الگ ہے کہ، مؤرخین کے مطابق، شہنشاہ الیکسیوس صلیبی جنگ کے اعلان سے حیران رہ گئے تھے اور وہ اس سے کچھ زیادہ خوش نہیں تھے، لیکن اس پر مزید بات آگے چل کر کریں گے۔ مزید پڑھیے: استنبول کی ’طوائف گلی‘ کی تھیوڈورا سلطنت روم کی ملکہ کیسے بنی؟ شہزادی جہاں آرا اور شاہ جہاں کے تعلقات متنازع کیوں بنے؟ ایسا نہیں کہ شہزادی اینا میں ’تخت کے لالچ‘ کا ذکر نہیں ہوتا یا پہلی اولاد ہونے کے ناطے انھوں نے اس کی کوشش نہیں کی ہو گی۔ کچھ مؤرخین لکھتے ہیں انھوں نے اپنے والد کی موت کے بعد اپنے بھائی کے خلاف سازش کر کے اپنے شوہر کے ساتھ مل کر اقتدار حاصل کرنے کی ناکام کوشش کی تھی اور اسی پاداش میں انھیں اپنی زندگی کے آخری سال راہبہ کے طور پر ایک خانقاہ میں گزارنے پڑے جہاں انھوں نے اپنی کتاب ’الیکسی ایڈ‘ لکھی۔ خانقاہ اور راہبہ والی بات تو حقیقت ہے لیکن ان کو زبردستی وہاں بھیجنے والی بات پر سب مؤرخ متفق نہیں۔ اینا کومنینے کا بڑا کمال یہ نہیں تھا کہ انھوں نے 15 جلدوں پر مشتمل تاریخ کی کتاب لکھی بلکہ قرون وسطیٰ کے بازنطینی معاشرے میں اصل کمال اور انوکھی بات یہ تھی کہ انھوں نے یہ کتاب لڑکی ہونے کے باوجود لکھی۔ 11ویں صدی کی بازنطینی سلطنت کے ماحول کے پس منظر میں دیکھا جائے تو انھوں نے یہ کتاب لکھنے کے لیے وہ حدیں پار کیں جو ’اچھے‘ گھر کی لڑکیاں نہیں کرتی تھیں۔ کولووو لکھتی ہیں کہ بہترین اساتذہ کے ہوتے ہوئے بھی قسطنطنیہ میں کسی لڑکی کے لیے علم کے حصول میں بہت سی مشکلات تھیں۔ ’سب سے اہم بات یہ کہ عورت کا دانشور ہونے کا تصور ہی لوگوں کے لیے عجیب تھا، ایسی عورت کو کرشمہ سمجھا جاتا تھا یا بلا۔‘ روایتی سوچ کے مطابق علم کا حصول اور دانش مردانہ خصوصیات تھیں اور عورت اپنے ’جذباتی‘ مزاج کی

muhsin95ali · Geschichte
Zu wenig Bewertungen
1 Chs

Benign Flame: Saga of Love

The attractions Roopa experienced and the fantasies she entertained as a teen shaped a male imagery that ensconced her subconscious. Insensibly, confident carriage came to be associated with the image of maleness in her mind-set. Her acute consciousness of masculinity only increased her vulnerability to it, making her womanliness crave for the maleness for its gratification. However, as her father was constrained to help her in becoming a doctor, she opts to marry, hoping that Sathyam might serve her cause though the persona she envisioned as masculine, she found lacking in him. But as he fails to go with her idea, she becomes apathetic towards him, and insensibly sinks into her friend Sandhya’s embrace, for lesbian solace. Soon, in a dramatic sequence of events, Tara, a suave call girl, tries to rope Roopa into her calling; Roopa herself loses her heart to Sandhya's beau Raja Rao, and Prasad, her husband’s friend falls for her. And as Prasad begins to induce Sathyam to be seduced by whores to worm his way into her affections, Roopa finds herself in a dilemma. However, as fate puts Raja Rao into Roopa’s arms in such a way as to lend novelty to fiction, this ‘novel’ nuances man-woman chemistry on one hand, and portrays woman-woman empathy on the other. Who said the novel is dead; 'Benign Flame' raises the bar as vouched by - The plot is quite effective and it’s a refreshing surprise to discover that the story will not trace a fall into disaster for Roopa, given that many writers might have habitually followed that course with a wife who strays into extramarital affairs - Spencer Critchley, Literary Critic, U.S.A. The author has convinced the readers that love is something far beyond the marriage tie and the fulfillment in love can be attained without marriage bondage. The author has achieved a minor revolution without any paraphernalia of revolution in the fourth part of the novel – The Quest, India. The author makes free use of – not interior monologue as such, but – interior dialogue of the character with the self, almost resembling the dramatic monologue of Browning. Roopa, Sandhya, Raja Rao and Prasad to a considerable extent and Tara and Sathyam to a limited degree indulge in rationalization, trying to analyse their drives and impulses – The Journal of Indian Writing in English. Overall, Benign Flame is a unique attempt at exploring adult relationships and sexuality in the contemporary middle-class. All the characters come alive with their cravings and failings, their love and their lust. Benign Flame blurs the lines and emphasizes that life is not all black and white - it encompasses the full spectrum of living - Indian Book Chronicle.

BS_Murthy · Urban
Zu wenig Bewertungen
38 Chs
Inhaltsverzeichnis
Latest Update
Volumen 1 :vol 2

Bewertungen

  • Gesamtbewertung
  • Qualität des Schreibens
  • Aktualisierungsstabilität
  • Geschichtenentwicklung
  • Charakter-Design
  • Welthintergrund
Rezensionen

UNTERSTÜTZEN

empty img

Demnächst

Mehr zu diesem Buch

Meldung