webnovel

chapter#06

یہ دن میرے لیے بہت خوش کُن تھے

دن میں کئ بار انکو پکارتی Shaji وہ کہتے "جی بولیں"

میرا جی چاہتا اس جی بولیں پر فدا ہو جاؤں، ہزار ہزار بار بلائیں اتاروں کے محبت سے دل شاد و آباد ہو رہا ہے ۔۔۔

اور مجھے کہنا ہی کیا ہوتا تھا سواۓ اسکے کہ

"مجھے آپ سے محبت ہے"

پھر اسکا کوئی جواب نہیں آتا ۔۔۔

کیونکہ اسکا جواب پہلے ہی آچکا تھا ۔۔۔جو میں انکے لیے محسوس کرتی تھی ویسا کوئی جذبہ وہ میرے لیے محسوس نہیں کرتے تھے۔۔۔

میرے لیے یہی کافی تھا فلحال ۔۔۔ میں اس تھوڑے میں بھی بہت خوش تھی ۔۔۔

میں بہت وقت کے بعد واقعی بہت خوش تھی کئ سالوں کے بعد میں جی بھر کے عید کیلئے شاپنگ کر رہی تھی ۔۔۔

آج اختتامِ شاپنگ کامران نے مجھ سے پوچھ ہی لیا خیریت تو ہے نا آج گیارہواں جوڑا خریدا ہے آپ نے ۔۔۔ آپکو تکلیف ہو رہی ہے جبکے ان میں سے ایک کے بھی پیسے میں نے آپ سے تو ادا نہیں کرواۓ ۔۔۔ نا مجھے تکلیف ہو رہی ہے نا میں خرچ کرنے سے پیچھے ہٹوں گا آپ لینے والی بنیں تو دس اور سہی ۔۔۔ آپ خوش ہیں میرے لئیے خوشی کی بات ہے پر میں جاننا چاہتا ہوں خوشی کی وجہ کیا ہے۔۔۔ شکریہ میری اوقات میں ہوگا تو خود خرید لونگی اور دس بھی ۔۔۔آپکے لیے اتنا جاننا کافی ہوگا کہ میری کسی بھی بات کا آپ سے کوئی تعلق نہیں ۔۔۔ یہ تو مجھے سمجھ میں آرہا ہے ۔۔۔

تعلق کس کا ہے یہی جاننا ہے

آپکا مسلۂ کیا ہے آپ سے میرا سکون برداشت نہیں ہو رہا ہے کیا ۔۔۔ میرا بحث کا بلکل کوئی ارادہ نہیں مجھے گھر چھوڑ دیں ۔۔۔

کیوں گھر کیوں ابھی تو آپکو کے ڈی اے مارکیٹ جانا تھا

جانا تھا اب نہیں جانا ہے ۔۔۔

مجھے ان کی بات پر غصہ آرہا تھا میں نے تو نہیں کاؤنٹ کیا کہ میں نے کیا اور کتنا خرید ڈالا انکو کیوں فکر لاحق ہے ۔۔۔

خیر میں اپنا موڈ نہیں خراب کرنا چاہتی تھی۔۔۔

میں تو دن کے ہر اس پل جب مجھے جینے کیلئے پل ملا اُنکو دیکھ دیکھ کر گزار رہی تھی کیا سحری ،کیا افطاری ۔۔۔ ہر پل جیسے وہ ساتھ ساتھ تھے ۔۔۔

آج وہ دن تھا جس دن میرے معبودِ عشق ( Shaji Haider )دنیا میں آۓ تھے ۔

میں نے لفظوں میں پِرو کر جذبات و دعائیں بھیجیں تھیں ، ساتھ سلامتی کا بوسا بھی بھیجا تھا ۔۔۔ پہلی بار بھیجا تھا مجھے لگا خاص دن پر خاص تحفہ ہونا چاہیے ۔۔۔ جو انہیں یاد رہ جائے ۔۔۔ لیکن خاک ہی یاد رہا ، یکسر نظر انداز ہی ہوگیا ۔۔۔ دعاؤں کیلئے شکریہ ضرور ادا کیا تھا انہوں نے۔۔۔

میرے بہت سے تصوراتی قصے جو صرف مجھ سے اور ان سے وابستہ تھے انکو سنانا چاہتی تھی ایک دو بھیجے بھی تو انہوں نے مجھ سے ہی پوچھ ڈالا ان باتوں کا کیا جواب دوں ۔۔۔

اس بات کا میرے پاس بھی کوئی جواب نہیں تھا کہ انکو کیا جواب دینا ہے یہ تو وہ ہی بہتر طے کر سکتے تھے ۔۔۔ پھر میں نے سوچا ان قصّوں کو رمضان کے بعد بھیجوں گی ۔۔۔ رمضان کا احترام لازم ہے ۔۔۔

مجھے لگا میرے پاس کونسا وقت ختم ہو رہا ہے جو جلد بازی کے گھوڑے پر سوار ہو جاؤں۔۔۔

مجھے کہاں معلوم تھا میری خوشی کی مدت پوری ہو رہی ہے۔۔۔

میں نے آج بھی انکو پکارا تھا اُسی طرح جیسے میں آجکل پکار رہی تھی

Shaji

آج جواب مختلف تھا

"کوئی کام کی بات ہے تو بولیں"

دل میں آیا کہوں کام کی بات یہ ہے کہ شام کو گھر آتے ہوئے کچن میں یہ نہیں لے لیں فریج میں وہ ختم ہوگیا ہے وہ بھی لے لیں اور ہاں بےبی کے دودھ کا ڈبہ بھی لے لیں ۔۔۔

اسکے علاؤہ ایک خاتونِ خانہ کے پاس اور کیا کام کی بات ہو سکتی ہے ۔۔۔۔ میرا کوئی ٹیکسٹائل مِیل بھی تو ہے نہیں کہ آج کے شیئرز کیا ہیں یہ پوچھوں۔۔۔

مجھے لگا میں مزاق کروں اور وہ غصہ نا ہو جائیں

حلانکہ دوچار روز قبل میرے پوچھنے پر انہوں نے کہا تھا " نا میں غصہ نا میں ناراض"

اور میرا دل حسرت کر رہا تھا کاش وہ اس پل سامنے ہوتے جن ہونٹوں سے یہ لفظ ادا ہوۓ میں وہ ابھی چوم لوں ۔۔۔ پر سامنے نہیں تھے نا۔۔

میرے دل کو جانے کیوں انکے لفظوں میں چھپا غصہ سنائی دیتا ، روئیے میں چھپی بے رخی دکھائی دیتی۔۔۔

جواب میں میں نے وہی کہا جو میں روز کہتی تھی

کام کی بات بھی یہی ہے کہ "مجھے آپ سے محبت ہے "

حقیقت بھی یہی تھا اس سے اہم کوئی کام میرے لئیے اب تھا کہاں کہ صرف آپ سے محبت کرتی رہوں ۔۔۔

جو مجھے آغاز لگ رہا تھا وہ اختتام ہوگا مجھے نہیں معلوم تھا ۔۔۔

انکو جانے کس بات کا غصہ تھا یا میری بات پر غصہ آگیا تھا ۔۔۔

وہ چند سخت الفاظ بول کر چپ ہوگۓ یا مجھے سخت لگے مجھے تو اب زرا سی ٹھیس بھی بہت بڑی لگتی ہے ۔۔۔

وہ خود بھی چُپ ہوگۓ اور میں بول نا سکوں اسلئے واپس سے رابطہ منقطع ہو گیا ۔۔۔

جیسے تیسے وقت گزرا پھر بھی میں نے ہمت کر کہ افطاری کے بعد فون کیا

اور وہ مجھ سے کہہ رہے تھے کیوں کر رہی ہیں آپ میرے ساتھ ایسا میں نے تو اپکا کچھ نہیں بگاڑا نا ۔۔۔

شاید میں صرف اتنا ہی کہہ سکی "نہیں"

کیونکہ اس جملے میں اور اس جملے کے ادا کرنے والے کے لہجے میں بہت کچھ تھا۔۔۔ فون بند ہوگیا یا یوں کہا جائے میرا دھڑکتا ہوا دل بند ہوگیا ۔۔۔

خوشی کا چراغ بُجھ گیا ۔۔۔

جیسے میرے اندھیارے جیون کی ایمرجنسی لاٹ آف ہوگئی۔۔۔ اور پھر سے اندھیرا ہوگیا ۔۔۔

دل خوب رویا آنکھوں نے بھی اسکا خوب ساتھ دیا ۔۔۔

دل کے خون پر میں ماتم کر رہی تھی گھر کے کسی بھی فرد سے میری حالت چھپی نہیں رہی ۔۔۔

کامران نے آپی کو یہ خبر پہنچا دی ۔۔۔

کامران اور آپی کے تعلقات پہلے جیسے نا صحیح پھر بھی بہتر ہوچکے تھے۔۔۔

یا یوں کہا جائے آپی نے خاص کر کے ٹھیک کیے۔۔۔ کیوں کے آپی کو لگ رہا تھا جو امی چاہتی ہیں وہ نا ہو اسکے لئے کامران سے تعلق بہتر کر کہ ہی وہ ایسا کر سکتی ہے ۔۔۔

میرے خود کے اندر ایک جنگ تھی ان لفظوں، اس لہجے کی اور بہت کچھ۔۔۔

اور وہ مجھے فون کر کے مزید پریشان کر رہی تھی اسے فکر تھی میں پھر بیمار نا ہو جاؤں۔۔۔

آپی میں نہیں بیمار ہو رہی دوا سے باسکٹ بھرا ہے یہاں میں مُٹھی بَھر بھَر کے ٹھونس رہی ہوں۔۔۔

اور کیا کروں ۔۔۔

وہ مجھ پر چیخ رہی تھی اگر تم بیمار نہیں ہو تو صبح کامران تمہیں ہسپتال کیا سیر کروانے لے گیا تھا۔۔۔

تم لوگ مجھے سے اگر اتنا ہی پریشان ہو تو زہر دے دو مجھے میں خوشی سے کہا لونگی ،،، میری بیماری کو موت کی وجہ بتا دینا ۔۔۔

تم پاگل ہو چکی ہو لڑکی تم بلکل پاگل ہوچکی ہو ،،،

میں نے اسکی اور بات سنے بغیر ہی فون بند کردیا اس بار میں نے کال نہیں کٹ کیا تھا اپنا موبائل ہی آف کردیا ۔۔۔ ورنہ وہ مجھ سے وجہ پوچھ پوچھ کر خود کو ہلکان اور مجھے پریشان کرتی ۔۔۔ میں نے خود کو اتنا سنبھال لیا کہ میری وجہ سے دوسرے پریشان نا ہو۔۔۔ پھر میں نے خود کو کمرے میں بند کر کے سکون سے سو کر عید گزار دی ۔۔۔

لیکن عید کے دوسرے دن آپی نازل ہوگئی۔۔۔ وہ ائیر پورٹ سیدھے میرے پاس آئی گھر بھی نہیں گئ بقول آپی جبکہ اسکے شوہر محترم اپنے ساز و سامان کے ساتھ اپنی اماں کے دربار پر حاضری لگانے گۓ۔۔۔ اور وہ کامران کے ساتھ میرے پاس آئی ہے ۔۔۔ میرے کمرے کا دروازہ پیٹ پیٹ کر مجھے اپنے آنے کی تفصیل سُنا رہی تھی۔۔۔ میں نے بنا دروازہ کھولے جواب دیا تو کیوں آئی ہو جاؤ ۔۔۔ پچھلی بار بولا بولا کر اتنی لیٹ آئیں تھیں کے میں مرنے ہی لگی تھی اب بھی جلدی نہیں آسکتی تھی ۔۔۔ اب کوئی فائدہ نہیں ہے تمہارے آنے کا ویسے بھی میں ابھی مری نہیں ہوں تسلی کر لو زندہ ہوں۔۔۔ جب مر جاؤں تو آجانا دفنانے

اچھا دروازہ تو کھولو۔۔۔اس نے مکمل محبت سے مجھے پکارا ۔۔۔ جیسے لہجے میں وہ کبھی بچپن میں مجھے مناتی تھی ۔۔۔ میں نے بھی اسی طرح جواب دیا۔۔۔ نہیں۔۔۔

بات تو سنو اچھا اب میں تمہیں چھوڑ کر نہیں جاؤں گی باہر آؤ پلیز۔۔۔

در۔وازہ۔کھو۔لو۔

یہ آخری آواز امی کی تھی۔۔۔ امی کی آواز آتے ہی ہماری بولتی بند لحاظہ دروازہ کھول دیا ۔۔۔

کیا تماشہ ہے یہ (کمرے میں داخل ہوتے ہوئے انہوں نے مجھ سے پوچھا )

زندگی کو تماشہ بنا کر پوچھ رہی ہیں کیا تماشہ ہے ۔۔۔ لیکن انکو کوئی کچھ بولنے کی ہمت کہاں سے لائے

لائٹ آن کرو کس قدر اندھیرا ہے ۔۔۔ ویسے تو یہاں جو اندھیرا اس کو مٹانے کیلئے سورج بھی لے آؤں تو بھی کم پڑے ۔۔۔ خیر انکے حکم کے تعمیل پر لائٹ آن کر دیا کیا ہے یہ سب؟ دل تو چاہا رہا تھا انکے اس سوال پر سب شروع سے آخر تک انکو سُنا دوں پتہ جو کچھ نہیں ہے نا انکو ۔۔۔

نوشین بچوں کو ریڈی ہونے کا کہو ڈنر باہر کریں گے ۔۔۔ اور چلو تم جا کر اپنا حلیہ درست کرو جلدی ۔۔۔

یہ تھا عید کا دوسرا دن جو فوڈ اِن میں ڈنر کے ساتھ ختم ہو گیا۔۔۔

Continued....

Next chapter