webnovel
avatar

کہیں کسی روز Novels & Books - WebNovel

Novels9

Popular
  • altalt

    وقت کسی کے لئیے نہیں رکتا۔

    Iqra_Sattar · Fantasy
    Not enough ratings
  • altalt

    جوانی که هرگز روز خوشی ندید

    DaoistcOQQsY · History
    Not enough ratings
  • altalt

    کہیں چھری اسماعیل علیہ السلام کے گلے پر نہ پھر جائے، شیطان کو اس

    DaoistbeUVy7 · History
    Not enough ratings
  • altalt

    مختصر یہ کہ جب اپنا سکون کسی اور کہ ہاتھ میں ہو تو اس بے سکونی سے بڑھ

    Kishor_Khokhar · History
    Not enough ratings
  • altalt

    حدیں پار کرنے والی وہ شہزادی جس کی کتاب پہلی صلیبی جنگ کی اہم شہادت ۔

    نے اس سال اپریل کے مہینے میں مسیحی تہوار ایسٹر کے موقع پر فیصلہ کیا کہ وہ 40 روز تک صرف پانی اور باسی روٹی پر گزارا کریں گے، سروں میں خاک ڈال کر رہیں گے، زمین پر سوئیں گے اور اس دوران سب صرف انتہائی سادہ اور کھردرے موٹے کپڑے پہنیں گے۔ ایک خانقاہ میں راہبوں کے کسی خاندان کا اس طرح رہنا تو کسی بھی زمانے میں عام بات ہے، لیکن یہ کسی خانقاہ کا منظر تھا اور نہ ہی اس خاندان کے لوگ راہب ،تصویر کا ذریعہDEA / G. DAGLI ORTI/GETTY IMAGES ،تصویر کا کیپشن شہنشاہ الیکسیوس: سنہ 1081 میں حکمران بننے کے بعد الیکسیوس تقریباً چالیس برس تک اور پھر ان کے بیٹے جان 20 برس تک بازنطینی سلطنت کے شہنشاہ رہے۔ شہزادی اینا نے 15 جلدوں پر مشتمل اپنی کتاب 'الیکسی ایڈ' میں اپنے والد کے دور کا تفصیلی احوال پیش کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب شہزادی کی عمر 7 برس تھی بادشاہ سٹیفن نے ان سے سیکس کی کوشش کی جس کے نتیجے میں وہ ہمیشہ کے لیے بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو گئی تھیں۔ اس کے بعد بھی ان کی پوری زندگی زیادتی کی مثال بنی رہی جس میں تاریخ پڑھیں تو ان کے والد ان کے شوہر کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔ شہزادی سیمیون کی شادی کا یہ واقعہ شہزادی اینا کرومنینے کی پیدائش سے تقریباً دو صدیوں بعد کا ہے۔ اینا کومنینے سات برس کی تھی جب وہ اپنے ہونے والے شوہر کے گھر بھیج دی گئی تھی۔ ان کے منگیتر کانسٹنٹائین ڈوکاس تھے جو ایک سابق شہنشاہ مائیکل ہفتم کے بیٹے تھے۔ یہ منگنی اینا کی پیدائش کے کچھ ہی عرصے بعد ہوئی تھی۔ دونوں بچوں کو منگنی کے وقت بازنطینی عوام کے سامنے پیش کیا گیا اور سب کی نظروں میں وہ مستقبل کے شہنشاہ اور ملکہ تھے۔ لیکن یہ صورتحال دیر تک قائم نہیں رہ سکی کیونکہ جب اینا چار برس کی تھی ان کے والدین ہاں بیٹے کی پیدائش ہو گئی۔ اس کے علاوہ کانسٹنٹائین کا بھی جلد انتقال ہو گیا۔ اینا 12 برس کی عمر میں اپنے گھر واپس آ گئیں۔ یہیں سے، شہزادی کی طرف سے تاریخ لکھنے کے فیصلے کے بعد، کہانی میں دلچسپی کا مرکز نصف صدی سے زیادہ عرصے تک دنیا کی ایک بڑی سلطنت کے شہنشاہ رہنے والے دو باپ بیٹے نہیں رہتے بلکہ تاریخ لکھنے کی جرات کرنے والی ایک شہزادی بن جاتی ہے۔ شہزادی جس کی اس معاشرے میں ذمہ داری زمانے کے تقاضوں کے مطابق لڑکی ہونے کے ناطے صرف شادی کرنا اور نبھانا ہونی چاہیے تھی۔ سنہ 1081 میں حکمران بننے کے بعد الیکسیوس تقریباً 40 برس تک اور پھر ان کے بیٹے جان 20 برس تک بازنطینی سلطنت کے شہنشاہ رہے۔ شہزادی اینا نے 15 جلدوں پر مشتمل اپنی کتاب ’الیکسی ایڈ‘ میں اپنے والد کے دور کا تفصیلی احوال پیش کیا ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے پہلی صلیبی جنگ کا بھی تفصیلی ذکر کیا ہے اور اسے اس جنگ کی ایک اہم دستاویز سمجھا جاتا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ شہزادی اینا کے والد نے سلطنت کی مشرقی سرحدوں پر سلجوکوں کی صورت میں پیدا ہونے والے خطرے سے نمٹنے کے لیے پاپائے روم سے مدد طلب کی تھی جس کے جواب میں پاہائے روم نے صلیبی جنگ کا اعلان کر دیا۔ یہ بات الگ ہے کہ، مؤرخین کے مطابق، شہنشاہ الیکسیوس صلیبی جنگ کے اعلان سے حیران رہ گئے تھے اور وہ اس سے کچھ زیادہ خوش نہیں تھے، لیکن اس پر مزید بات آگے چل کر کریں گے۔ مزید پڑھیے: استنبول کی ’طوائف گلی‘ کی تھیوڈورا سلطنت روم کی ملکہ کیسے بنی؟ شہزادی جہاں آرا اور شاہ جہاں کے تعلقات متنازع کیوں بنے؟ ایسا نہیں کہ شہزادی اینا میں ’تخت کے لالچ‘ کا ذکر نہیں ہوتا یا پہلی اولاد ہونے کے ناطے انھوں نے اس کی کوشش نہیں کی ہو گی۔ کچھ مؤرخین لکھتے ہیں انھوں نے اپنے والد کی موت کے بعد اپنے بھائی کے خلاف سازش کر کے اپنے شوہر کے ساتھ مل کر اقتدار حاصل کرنے کی ناکام کوشش کی تھی اور اسی پاداش میں انھیں اپنی زندگی کے آخری سال راہبہ کے طور پر ایک خانقاہ میں گزارنے پڑے جہاں انھوں نے اپنی کتاب ’الیکسی ایڈ‘ لکھی۔ خانقاہ اور راہبہ والی بات تو حقیقت ہے لیکن ان کو زبردستی وہاں بھیجنے والی بات پر سب مؤرخ متفق نہیں۔ اینا کومنینے کا بڑا کمال یہ نہیں تھا کہ انھوں نے 15 جلدوں پر مشتمل تاریخ کی کتاب لکھی بلکہ قرون وسطیٰ کے بازنطینی معاشرے میں اصل کمال اور انوکھی بات یہ تھی کہ انھوں نے یہ کتاب لڑکی ہونے کے باوجود لکھی۔ 11ویں صدی کی بازنطینی سلطنت کے ماحول کے پس منظر میں دیکھا جائے تو انھوں نے یہ کتاب لکھنے کے لیے وہ حدیں پار کیں جو ’اچھے‘ گھر کی لڑکیاں نہیں کرتی تھیں۔ کولووو لکھتی ہیں کہ بہترین اساتذہ کے ہوتے ہوئے بھی قسطنطنیہ میں کسی لڑکی کے لیے علم کے حصول میں بہت سی مشکلات تھیں۔ ’سب سے اہم بات یہ کہ عورت کا دانشور ہونے کا تصور ہی لوگوں کے لیے عجیب تھا، ایسی عورت کو کرشمہ سمجھا جاتا تھا یا بلا۔‘ روایتی سوچ کے مطابق علم کا حصول اور دانش مردانہ خصوصیات تھیں اور عورت اپنے ’جذباتی‘ مزاج کی

    muhsin95ali · History
    Not enough ratings
  • altalt

    ’اب اس ملک میں کوئی بنگالی رہے گا نہ پنجابی، سندھی رہے گا نہ پٹھان، ن

    ’اب اس ملک میں کوئی بنگالی رہے گا نہ پنجابی، سندھی رہے گا نہ پٹھان، نہ بلوچ، نہ بہاولپوری : ’علاقائیت کے خاتمے‘ کے نام پر کیا گیا فیصلہ جو آج بھی پاکستان کو پریشان کر رہا ہے ’اب اس ملک میں کوئی بنگالی رہے گا نہ پنجابی، سندھی رہے گا نہ پٹھان، نہ بلوچ، نہ بہاولپوری اور خیر پوری اگر کوئی رہے تو وہ ہو گا پاکستانی اور صرف پاکستانی۔‘ پاکستان کی قومی اسمبلی میں اس روز چہل پہل معمول سے زیادہ تھی، کسی خاص دن کی طرح، پھر یہ دن ایک یادگار کیفیت اختیار کر گیا جب قائد ایوان محمد علی بوگرا اپنے خصوصی پروٹوکول کے ساتھ ایوان میں داخل ہوئے۔ سپیکر قومی اسمبلی نے ایوان کی کارروائی شروع کی اور قائد ایوان کو خطاب کی دعوت دی۔ اس کے بعد ایوان میں وزیر اعظم محمد علی بوگرا کی جانی پہچانی آواز گونجی جس پر ان کا بنگالی لہجہ غالب تھا۔ اپنے پرجوش خطاب میں انھوں نے پاکستان کے مختلف صوبوں کی علاقائی شناختوں کے خاتمے کا اعلان کر کے صرف ایک پاکستانی قومیت کے وجود اور اس کے پھلنے پھولنے کا اعلان کیا اور کہا کہ یہ تمام شناختیں آج سے ختم ہوئیں، آج سے ہماری ایک ہی شناخت ہے اور وہ ہے، پاکستان۔ اس سفر کی ابتدا 22 نومبر 1954 کو ہوئی تھی جب وزیر اعظم پاکستان محمد علی بوگرا نے گورنر جنرل غلام محمد کی ایما پر ایک مسودہ قانون کی تیاری کا اعلان کیا جو ایک ایسے دور کی تمہید ثابت ہوا جسے آگے چل کر ایک بڑے بحران کا نکتہ آغاز بننا تھا۔ اس اعلان کے ٹھیک دس مہینے کے بعد اسی قومی اسمبلی نے بل کی صورت میں پیش کیے گئے اس قانونی مسودہ کی منظوری دی جس کے تحت مغربی پاکستان کے تمام صوبوں اور علاقوں کو ایک ایک صوبے میں ضم کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور تجویز کیا گیا کہ باہم ضم کیے گئے ان صوبوں اور علاقوں کو صوبہ مغربی پاکستان کا نام دیا جائے گا۔ اس بل کی منظوری کے ٹھیک دو ہفتے کے بعد یعنی 14 اکتوبر 1955 کو یہ بل نافذ العمل ہو گیا۔ تاریخ میں اس بل کو ون یونٹ منصوبے کے نام سے شہرت حاصل ہوئی۔ علاقائی اور لسانی شناختیں ختم کر کے ایک پاکستانی شناخت والا اعلان اسی قانون کی منظوری کے موقع پر کیا گیا تھا۔ اس بل کی منظوری کے بعد وزیر داخلہ میجر جنرل سکندر مرزا نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانی عوام کو یہ خوش خبری سنائی: 'یہ صوبائی تعصبات کی لعنت کا خاتمہ کرے گا۔اس کے ذریعے پسماندہ علاقوں میں ترقی کا دروازہ کھلے گا۔ یہ انتظامی اخراجات میں کمی لائے گا، آئین سازی میں آسانی پیدا کرے گا۔ اور سب سے بڑھ کر مشرقی اور مغربی پاکستان کو زیادہ سے زیادہ صوبائی خود مختاری کی فراہمی کا ذریعہ بنے گا۔' کیا صوبائی منافرتوں کا خاتمہ، پسماندہ علاقوں کی ترقی، آئین سازی میں سہولت اور زیادہ سے زیادہ صوبائی خود مختاری کی فراہمی ہی اس فیصلے کی بنیاد تھی؟ پاکستان کی سیاسی تاریخ سے تعلق رکھنے والی بیشتر کتابوں میں شامل تفصیلات اور سیاسی امور کے ماہرین اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ سنہ 2002 کے عام انتخابات کے بعد مسلم لیگ ق کی وفاقی حکومت کے وزیر اطلاعات محمد علی درانی کہتے ہیں کہ ان کے پاس 1954 میں تیار کیے جانے والے پاکستان کے پہلے آئین کا وہ مسودہ آج بھی موجود ہے جس میں ملک کے مشرقی اور مغربی حصے کے درمیان آبادی کے توازن کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل کر دیا گیا، یعنی ملک کے دونوں حصوں کی آبادی کے تناسب کے عین مطابق قومی اسمبلی میں مشرقی پاکستان کی نشستوں کا تناسب 55 فیصد اور مغربی پاکستان کی نشستوں کا تناسب 45 فیصد تھا جس پر ملک کے دونوں حصوں میں پہلی بار اطمینان محسوس کیا گیا تھا۔ محمد علی درانی نے مجھے بتایا: 'اس سے پہلے کہ آخری خواندگی مکمل ہونے کے بعد یہ آئین نافذ ہو کر پاکستان کو سیاسی استحکام کے راستے پر گامزن کر دیتا، گورنر جنرل غلام محمد نے اسمبلی ہی کو تحلیل کر کے بحران پیدا کر دیا۔ اس کے بعد جو اسمبلی وجود میں آئی، اس میں ان کے ایما پر انتہائی جلد بازی میں ون یونٹ کے قیام کا اعلان کر دیا جس کے تحت قومی اسمبلی میں مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کی نمائندگی مساوی قرار پائی، اس طرح ملک کے مشرقی حصے کی عددی برتری کو پیریٹی کے اس فارمولے کے تحت مغربی حصے کی عددی کمی کے برابر قرار دے دیا گیا۔ گورنر جنرل غلام محمد ون یونٹ کی ضرورت کیوں محسوس کرتے تھے؟ اس کا اندازہ قیام پاکستان کے بعد پنجاب کے ابتدائی چند برسوں کے اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں، تجزیوں اور مضامین کے مطالعے سے سمجھ میں آتا ہے جن میں مشرقی پاکستان کی کثرت آبادی کو حقیقت کے منافی قرار دیا جاتا تھا۔ اس سلسلے میں روزنامہ شائع ہونے والا ایک مضمون خاص طور پر قابل ذکر ہے جس میں کہا گیا کہ مشرقی پاکستان کی بیشتر آبادی نابالغوں پر مشتمل ہے جسے ووٹ دینے کا حق حاصل نہیں۔ لہٰذا حقیقت یہی ہے کہ مشرقی پاکستان کی آبادی مغربی پاکستان سے زیادہ نہیں .

    muhsin95ali · History
    Not enough ratings
  • altalt

    Los Angeles Lovers " یہ Los Angeles تھا جہاں رات گیے تک public tran

    یہ Los Angeles تھا جہاں رات گیے تک public transportation چلتی تھی ۔ آج ایک الگ دن تھا Suzi اپنی job سے واپس گھر نہیں جانا چاھتی تھی ۔ وہ اکیلی اور خاموش لڑکی تھی بلکل novel stories میں بتاۓ جانے والی لڑکیوں جیسی پر Suzi بہت حسین تھی ۔ وہ چاند کی طرف دیکھتے ہوۓ سڑک پر کافی دلیری سے قدم اُٹھا رہی تھی شاید اُس نے پی رکھی تھی ۔ اب وہ ایک بس سٹاپ پر آ کر روک گئ اور یہ وہی بس تھی جو اُس کو اُس کے گھر لے جاتی ۔ وہ بس میں چڑھی اور سب سے آخری سیٹ پر نظر دوڑائی اور وہاں جا کر بیٹھ گئ ۔ کیا میں خوبصورت نہیں ہوں ؟ Suzi نے دریافت کیا اپنے ساتھ بیٹھے ایک اجنبی شخص سے وہ دیکھنے میں 35 سال کا لگتا ہے اور اچھی شکل و صورت کا ہے ۔ میں نے ایسا کب کہا ۔ martin نے جواب دیا ۔ تو تم میری طرف کیوں نہیں دیکھتے ؟ Suzi نے پھر سوال کیا ۔ Martin نے گلے کو صاف کرتا ہوۓ کہا ۔ آپ میرے لیے ابھی بلکل اجنبی ہیں میں آپ سے پہلی بار مل رہا ہوں جہاں تک مجھے لگتا ہے ۔ اور اُس نے اِس بار اپنی نظر اُٹھا کر جب Suzi کی آنکھوں میں دیکھا تو وہ اُن آنکھوں میں تیرتے ہوئے درد سے کچھ دیر خاموش ہو گیا ۔ جب کہ Suzi اب بھی اُسکی جانب دیکھ رہی تھی ۔ کافی دیر کی خاموشی کو پاؤں سے روند کر martin نے سوالیہ انداز میں پوچھا کیا میں آپکا نام جان سکتا ہوں ؟ جی ضرور ۔ میرا نام Suzi ہے ۔ اور آپکا ؟ جی martin martin نام ہے میرا اُس نے دو مرتبہ اپنا نام دہرایا ۔ نا جانے کیا ہوا کہ Suzi یکدم رونے لگی ۔لیکن بغیر آواز کہ martin اُسکی آنکھوں سے جاری ہونے والے آنسوں سے زیادہ پریشان نہیں ہوا کیونکہ یہ پہلی مرتبہ نہیں تھا جب وہ سیاہ کالے لباس میں ملبوس چاند سی لڑکی کو روتا دیکھ رہا تھا ۔ ایسا پہلے بھی ہو چکا تھا ۔ وہ اکثر خواتین کی بےبسی پر شرمندہ ہو جاتا تھا۔ خود کو اِس آزاد معاشرے کا باشندہ کہنا آسان تھا مگر یہاں کہ اصولوں پر عمل درآمد ہونا مشکل تھا ۔یہ بےبس خواتین جن کی آنکھوں میں درد نظر آتا تھا جو بہت سنجیدہ اور بہت اچھے گھروں سے تعلق رکھتی تھیں اب تنہائی کہ سبب روتی تھی یا پھر اُنکا کوئی اپنا جو اُنکا سرپرست تھا دنیا سے جا چکا تھا ۔ اچانک بس کی بریک لگی اور martin اپنی خیالی دنیا سے باہر آگیا اُس نے اِیک لمبا سانس لیا جیسے وہ یہ کہنا چاہتا ہو کہ اگر میں کچھ دیر اور اپنے خیالات میں رہتا تو شاید مر جاتا اور میری دماغ کی رگ پھٹ جاتی ۔ اُس نے Suzi کی جانب دیکھا ۔ وہ اب اپنی آنکھیں صاف کر رہی تھی ۔ لیکن وہ ایسا کیوں کر رہی تھی ؟ martin نے جو سے ایک بےتُکہ سوال کیا ۔ پھر اُس نے خودی خود کو جواب دیا ۔ شاید وہ دنیا کے سامنے اپنی یہ تصویر نہیں لانا چاہتی تھی ۔ Excuse me ... Martin said اور جیسے Suzi چاہتی تھی کہ martin اُسے مخاطب کرے ۔ کیا آپ ٹھیک ہو ؟ اُس نے پانی کی بوتل آگے کرتے ہوئے پوچھا ۔ اُس وقت Suzi نے پانی کی بوتل کو اپنے لبوں سے لگاتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا ۔ کیا میں جان سکتا ہوں آپ اُداس کیوں ہو ؟ martin نے دریافت کیا ۔ پر روز کی طرح اُسکا سٹاپ آگیا تھا اور وہ الوداع نا کہہ کر وہاں سے اُٹھ گئی اور اُترتے وقت اُس نے آخری بار martin کی جانب دیکھا وہ مُسکرایا جیسے وہ Suzi کا حوصلہ بڑھانا چاہتا تھا ۔ اگلے ہی لمحے وہ اپنے گھر تھی جہاں اُسکا دم گھٹتا تھا اب وہ اُس دیوار کی جانب دیکھ رہی تھی جہاں اُسکی اور اُسکے خاوند کی بہت ساری تصویریں تھیں وہ " Martin John تھا جس کو اِس دنیا سے گیے تین برس ہو چکے تھے مگر وہ آج بھی Suzi کی یادوں میں زندہ تھا جس کی محبت میں Suzi پل پل گُزار رہی تھی ۔

    Qasim_Chuhan · Horror
    Not enough ratings
  • altalt

    Wafa e hasrat

    وفائے حسرتِ اور ہم سوچتے ہیں انکے بارے میں جو سوچتے تو ہیں پر کسی اور کے لیے

    Kishwer_Shehzadi · History
    Not enough ratings
  • altalt

    Zindagi k safr

    آ ج کمال کا دکھ دے گیا وہ شخص ہاتھ ہمارا تھامے نظر کسی اور پہ اُٹھا گیا

    DaoistObRdZm · Fantasy
    Not enough ratings
No more results