باب 1
"وہ سورما ہوتے ہیں
جو پھینکتے ہیں کوٹ!
مگر وہ قسمت ہوتی ہے
جوشطرنج کھیلتی ہے!
اور تم بہت دیر سے جان پاتے ہو
کہ وہ کون تھا جو آغاز سے ہی
کے ساتھ!" Queensکھیل رہا تھا دونوں
(Terry pratehett)
"اللہ سب سے بڑا ہے "،مؤذن نے صدا لگائی جو سارے جہاں میں گونج اٹھی خوبصورت،پرُکشش آواز نے لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچایا اور پھر دھیرے دھیرے آواز دم توڑ گئی ۔
شہر کے پوش علاقوں میں بھی فجر نے سلام کیا تو وہاں بھی زندگی بیدار ہونے لگی۔ آج سورج بھی وہاں کے مکینوں کی طرح ٹھنڈا اور گہراثابت ہوا تھا۔ایسے میں ایک عا لیشان قصر میں سنہری آنکھوں والی لڑکی ،کھلے لمبے بال کمر کے پیچھے ڈالے آنکھوں پہ چشما لگائے ،بلیو جینز پے سفید شرٹ پہنے خفگی سے سامنے بیٹھی لڑکی کو بتارہی تھی۔
"اُس کی ہمت کیسے ہوئی تم سے اس طرح بات کرنے کی!"۔۔۔۔۔ وہ خفگی سے کہتی جارہی تھی اور سامنے بیٹھی لڑکی اُسی طرح مسکرا رہی تھی ،سیاہ بھوری آنکھیں جو کافی بڑی تھیں ،سیاہ لمبے بال جو نیچے سے موضوعی کرل ہوجاتے تھے، وہ بے حد خوبصورت اور دلکش نقش و نگار کی مالک تھی۔
تحمل سے اس کی بات سننے کے بعد اس نے دھیرے سے اْس کے ہاتھ تھامے اور بولی،"ہمیں کالج کی یہ فضول داستانیں اب ختم کردینی چاہیں،بھول گئی ہو کے کل سے ہمیں یو نیورسٹی جوائن کرنی ہے؟"
آمنہ جو دکھ اور ملال سے حیا کو دیکھ رہی تھی ،خوشی سے آگے ہوئی اور چہک چہک کے اْسے یونیورسٹی کی تفصیلات بتانے لگی ،جسے حیا مدہم مسکراہٹ کے ساتھ سنتی رہی۔۔۔۔۔۔۔۔
___________________________
قصرِ خان سے آگے جائو تو سورج کی کرنیں سفید عالیشان سے گھر کو اور خوبصورت بنانے میں مددگارثابت ہورہی تھی۔
ایسے میں کچن سے ناشتے کی آتی خوشبو اور اسمارہ بیگم کی اپنی ڈھیٹ اولاد سے حساب کتاب نے صبح اچھے سے بیدار کی تھی ۔
اسمارہ بیگم ناشتے کی میز پر سربرائی کڑسی پر بیٹھیں اپنے بیٹوں کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہیں تھی۔
"عمر اپلائی کیا ہے کہیں ؟" ، عمر معمولی شکل وصورت کا نوجوان تھا ، جو نظریں جھکائے بیٹھا تھا۔
"ہاں ! کیا تھا مگر پاس نہیں ہو ا ،عمر سہمی آواز میں بولا۔
معاذ نے بے زاری سے دونوں کو دیکھا۔
"کیا؟ نکمے،یااللہ میرے ہی حصے میں کیوں آنی تھی یہ اولاد ،اسمارہ چلائیں اور پھر یک دم معاذ کی طرف متوجہ ہوئیں۔
"تمہاری کب سے یونیورسٹی ہے؟،"معاذ خوبصورت شکل و صورت کا نوجوان تھا۔
"کل سے"، معاذ مسکرایا ۔
"میں آج صفدر سے بات کرتی ہوں ،مل جائے گی تمہیں جاب"،اسمارہ بیگم غصے سے بولیں اور عمر کا سر اور جھک گیا۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ایسے میں دونوں گھروں سے پرسکون باغیچے والا گھر تھا ۔جہاں کی صبح کی ایک اپنی ہی خوشبو تھی ، محبت کی خوشبو،احساس کی خوشبو۔۔۔
گول میز کے گرد سب توجہ اور پیار بھری مسکراہٹ سے سامنے بیٹھے واصل کو سن رہے تھے جو یونیورسٹی کی تفصیلات بڑے شوق سے سنا رہا تھا،
"میری یونیورسٹی میں ۔۔۔۔"واصل معمولی شکل و صورت کا مالک تھا ،سیاہ آنکھیں جو گول تھیں اور کافی چمک رہی تھیں ،سیاہ بال جو سب سے اچھے تھے،جنہیں بات کرتے کرتے عادتاٌ ہاتھ لگاتا رہتا تھا۔
"بابا میں سوچ رہا ہوں جاتے ساتھ ہی یونین الیکشن میں کھڑا ہو جاؤں، جب میں تقریر کررہا ہوں گا تو سب لوگ مجھے ہی ووٹ دیں گے۔"
"بھائی کا مطلب ہے لڑکیاں بھائی کو ووٹ دیں گی،ہونہہ،لڑکیاں اندھی تھوڑی ہوتی ہیں ۔"اسفاءجو واصل کی بات میں گھسنے کا موقعہ تلاش کررہی تھی فوراٌ سے بولی،اس سے پہلے وہ کوئ جواب دیتا صائم بھاگتا ہوا آیا،
"بھائی ، بھائی ! آپ کا فون!"واصل جو کچھ کہنے والا تھا،"ایکسکیوزمی" کہتا آگے بڑھ گیا۔
اسفاء جو اتنی دیر سے بھائی سے بات کرنا چاہ رہی تھی،یک دم خفا خفا سی دکھنے لگی،"ایک تو ہر وقت یہ فون بیچ میں آجاتا ہے،باتوں باتوں میں نام ہی پوچھ لیتی بھائی کی محبوبہ کا،لیکن مجال ہے جو یہ فون کچھ کرنے دے ،ارے! شاید اْسی کا ۔۔۔۔، اسفاء بڑ بڑاتے ہوئے چونکی اور واصل کے پیچھے لپکی،
"وائل اور میمونہ بے اختیار مسکرائے بلاشبہ وہ ایک خوش نصیب والدین تھے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اسلام علیکم ماما ،بابا ، حیا ڈائننگ روم میں داخل ہوتے ہوئے بولی ۔نائٹی کی جگہ وہ سفید شرٹ اور بلیک جینز میں ملبوس بے انتہا خوبصورت لگ رہی تھی۔
"کیسی ہے میری شہزادی،فاروق صاحب مسکراتے ہوئے بولے۔
"بابا شہزادی نہیں !"، حیا ہمیشہ کی طرح خفا ہوئی ۔
"کیوں ؟" ، فاروق صاحب دلچسپی سے بولے۔
"شہزادی بیچاری تو بادشاہ کے حکم پر چلتی ہے اور ہر معملے میں بادشاہ اس پر ذور زبردستی کرتے ہیں ،جبکے میں صرف اپنی سنتی ہوں"
"تو پھر کیا کہوں ؟" فاروق صاحب دلچسپی سے بولے۔
"ملکہ کہیں۔۔۔ملکہ کسی کی نہیں سنتی!" ،حیاء سوچ کر بولی ۔"ٹھیک ہے ملکہ مگر ایک بات یاد رکھے گا ،ملکہ بھی پہلے شہزادی ہوتی تھی اور شہزادی جس بادشاہ کی ملکہ بنتی ہیں وہ یہ بھی جانتی ہیں کہ بادشاہ کے حرم میں پہلے ہی بہت سی خوبصورت عورتیں موجود ہیں ،فاروق صاحب حیاء کو آنکھ مارتے ہوئے بولے ۔
"یہ آپ کیا باتیں لے کر بیٹھ گئے ہیں ،چلو ناشتہ کرو حیا ء، اور فاروق صاحب کسی لمحے چپ ہوجایا کریں ،دن بھر ہسپتال میں بھی بولتے اور یہاں بھی ،حد ہے! "،عائلہ اکتا کر بولیں اور فاروق اور حیاء ہنسی ضبط کر کے ناشتہ کرنے لگے ۔وہ دونوں عائلہ کو تنگ کرنے میں کامیاب ہوگے تھے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ہر جگہ طوفان ہی طوفان برپا تھا، اِدھر اْدھر لوگوں کی ایک لمبی قطار کبھی دائیں تو کبھی باہیں آجا رہی تھیں،ایسے میں بھوری سیاہ رآنکھیں بے چینی سے اِدھر اْدھر گھور رہی تھیں جیسے کسی کو تلاش کر رہی ہوں ۔
سامنے سے آمنہ کو آتے دیکھ کر سیاہ آنکھوںمیں بے چینی کی جگہ اطمینان نے لے لی،
"کہاں مرگئی تھی؟"حیا نے خفگی سے بولا،
بشیر میاں کو ٹھیک سے گاڑی چلانی ہی نہیں آتی ،جس رفتار سے وہ چلارہے تھے ،تو مجھے لگا اگلے سات دن لگ جائیں گے !"آمنہ نے بھی منہ بسور کے جواب دیا۔
"چلو سارا الزام اْن کے سر جب تیز چلاتے ہیں تو ڈانتی ہو اور جب ہلکے چلاتے ہیں تب بھی ڈانتی ہو ،اللہ جانے تمہیں آمنہ !"سرد آہ بھرتے ہوئے حیا نے کہا۔
"اچھا۔۔۔تم میری دوست۔۔۔۔" اس سے پہلے کے آمنہ فقرہ مکمل کرتی تین لڑکے اِن کی طرف آپہنچے،
"ہے گلز۔۔"اْن میں سے ایک لڑکے نے کہا ،سنہری آنکھوں والا لڑکا حیا کو سخت زہر لگا کیونکہ یہ فقرہ صرف اسے دیکھ کے بولا گیا تھا۔
آمنہ خوشی کے مارے لب کھلنے ہی والی تھی کے حیا نے اْسے اشارے سے چپ کروایا۔
"جی؟میں آپ کی کیا مدد کرسکتی ہوں؟"حیا نے روکھے لہجے میں کہا
"آپ سینیر ہیں ؟"حیا نے لہجے کا اثر لیے بغیر بولا
"کیوں آپ کو کوئی کام ہے؟" حیا نے پھر اْسی لہجے میں بولا۔
"نہیں" معاذ تسلیم نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا۔
"تو پھر اگلے ایک منٹ یہاں سے کہیں دور چلے جائیں "
"سمجھے؟ "حیا نے غصہ ضبط کرتے ہوئے کہا۔
"ہم جلد دوبارہ ملیں گے" ، معاذ نے ایک آنکھ دباتے ہوئے کہا۔
آپ جارہے ہیں یا میں دوسرا راستہ اختیار کروں "حیا نے غصہ سے کہا۔
اس سے پہلے کے معاذ کچھ کہتا اْس کے دوست اْسے زبردستی لے گئے۔
کوئی شرم ہوتی ہے آگئے منہ اٹھا کر" حیا نے غصے سے کہا۔
" کیا تھا بات کرلیتے،تمہیں بیوٹی اٹریکٹ نہیں کرتی کیا؟،اتنے خوبصورت۔۔۔۔" آمنہ جو بولے جا ہی تھی حیا نے درمیان میں بات کاٹ کر بولا۔
" آمنہ ! میں نہ تو تم جیسی ہوں اور نہ ہی بننا چاہتی ہوں،کب تک بے وقوف رہوگی، جاو جا کے افئیر چلائو ،لیکن شادی کرنی تم نے اپنے پھو پھو کے لڑکےسے ہی ہے،پتا نہیں کس چیز کی بناء پر آجاتے ہیں لڑکے؟"
"اپنے آپ کو دیکھو !حْسن میری دوست حْسن !"یہ جواب اِن دونوں نےنہیں بلکہ وہاں اْن سے تھوڑی دور موجود ایک لڑکی نے دیا تھا جو اِن کی جانب آرہی تھی۔حجاب اور برقے میں ملبوس دراز قد لڑکی ،چہرہ نقاب کی وجہ سے ڈھکا تھا،مگر گِرے رنگ کی آنکھیں صاف واضح تھیں ۔
"آپ کی تعریف؟" حیا نے موضوع تبدیل کردیا
"امل سعدی"مسکراتے ہوئے امل نے کہہ۔
"جی آپ کیا کہہ رہی تھیں ؟"آمنہ نےواپس سے سلسلہ جوڑنا چاہا۔
"چھوڑو یار ! اب نئی دوست سے ان فالتو لوگوں کے بارے میں کیا بات کرنا ،وہ تو کہہ کے گیا ہے اگلی دفعہ میں خود آؤں گی اس کے پاس،جب جاؤں گی جب کی تب دیکھی جائے گی ،چلوہم تمہیں اپنے بارے میں بتاتے ہیں۔"حیا ان کی بات سن کر مسکرا دی مگر آمنہ مایوس ضرور ہوئی ،لیکن پھر جلد ہی سنبھل گئی۔
حیا کا خیال تھا کے اب اْن دونوں کا سامنا نہیں ہوگا مگر وہ غلط تھی جلد ہی اسے اس شخص کے علاؤہ کوئی اور نظر نہیں آنے والا تھا ۔جبکے دوسری طرف معاذ مسکرایا اس کی ہمیشہ پہلی ملاقات خشک ہوتی تھی چاہے آج کی ہو یا چھے سات سال پہلے کی ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
"چلو سارے طلبہ اپنا اپنا تعارف کروانے کے لئے تیار ہوجائیں"پروفیسر شماس عینک کو اتارتے ہوئے بولے۔
ابھی تک پروفیسر شماس کے علاوہ کسی نے کلاس نہیں لی تھی،حیا کی کلاس میں کْل دس لڑکیاں تھیں ،حیا کو یہ جان کے غصہ اور بے بسی ہوئی تھی جب اْسے پتا چلا کہ اْن تین لڑکوں میں سے ایک لڑکا اْس کے ہی ڈیپارٹمنٹ میں اور اْس ہی کی کلاس میں ہے ۔
حیا ،امل اور آمنہ تینوں نے باری باری انگریزی میں اپنا تعارف کروایا،حیا کو اپنے تعارف کے دوران با ر بار اْس لڑکے کی خود پر پڑتی نظریں بے انتہا چوب رہی تھیں۔پھر کافی دیر بعد اس کے تعارف کی باری آئی،تابس خان نامی شخص جس پر ساہنوالی رنگت اور چھوٹا قد جچ رہا تھا،خوبصورت آنکھیں اور چہرے پر ایک مسکراہٹ لیے اْس نے قدرے اطمنان سے انگریزی میں اپنا تعارف کروایا۔
ہاف ٹائم سے پہلے پروفیسر شماس نے سرسری طور پر یونیورسٹی میں ہونے والے ہونین الیکشن کے بارے میں بتادیا تھا،جس میں سینیئرز اور جونیئرز دو لوگوں کے گروپ سے الیکشن میں کھڑا ہونا تھا۔
ہا ف ٹآئم میں امیدوار ایک دوسرے سے باتیں کررہے تھے ایسے میں وہ تینوں کینٹین میں چلی گئیں۔
"حیا ویسے تمہیں الیکشن میں کھڑا ہونا چاہیے تھا،سب تمہیں ہی وؤٹ دیتے،آمنہ نے آنکھ دباتے ہوئے کہا۔
"خوبصورتی اللہ نے اس لیے تو نہیں دی کے اْس کو لوگوں کو دیکھاکے جیتا جائے،امل نےقدرے آہستہ سے چائے کےکپ کو واپس رکھتے ہوئے کہا۔
ڈھیٹ لڑکیاں ہیں،نصحتیں ہم پر اثر نہیں کرتیں ،اگر تم بھی نصحیت کرتی رہو گی تو کوئی بھی ایسی جگہ نہیں بچے گی جہاں ہمیں کوئی نصحیت نہ کرتا ہواور دوستی میں نصحتیں۔۔۔۔۔نووئے!" آمنہ نے خفگی سے بولا۔
"اگر تم کچھ عرصے پہلے مجھ سے ملتی تو مجھے اپنا جیسا ہی پاتی مگر بابا کے انتقال کے بعد میں بلکل بدل گئی ،شاید ہر بیٹی اپنے باپ کے جانے کے بعد اتنی مضبوط ہوجاتی ہے ۔چلو کوئی بات نہیں آئیندہ خیال رکھونگی۔
وہ دونوں خاموش ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگیئں وہ سمجھ سکتی تھیں کے یہ ایک بیٹی کے اپنے باپ کے ساتھ جذباتیات کا رشتہ ہے ،ان کی یہ مشکل اْنہی کی کلاس کی لڑکی سجیلہ نے آسان کردی ۔
"تم لوگ یہاں بیٹھے ہو ،آجاؤ الیکشن کے لیے لڑکے اور لڑکیاں کی کمی پڑ رہی ہے اور پھر الیکشن مہم بھی شروع ہونے والی ہے،۔
"اب آئے گا نہ مزہ"سجیلہ نے مزے سے کہا کے اْن تینوں کی ہنسی چھپ نہ پائی اور وہ تینوں اْس کے ساتھ چل پڑے۔
میدان میں خوب شور ہو رہا تھا ،اْن تینوں کا اس شور میں حصہ لینے کا کوئی موڈ نہیں تھا اسی لیے کچھ دور گھاس پہ بیٹھ گئیں ،جبکہ سجیلہ عجیب و غریب آوازیں نکالتے ہوئے آگے بڑھ گئی۔
"یار میں اپنا بیگ تو کینٹین میں ہی بھول گئی ، میں ذرا لے آتی ہوں "،حیا نے اْن دونوں کی طرف دیکھے بغیر ہی جلدی سے کینٹین کی طرف بھاگی۔
کینٹین میں پہنچ کے جلدی سے "لوسٹ تھنگس" کے پورشن میں اپنا بیگ صحیح سلامت پا کر اطمینان ن کا سانس لیا مگر اگلے ہی لمحے اْس اطمینان کی جگہ غصے نے لے لی۔
"ہیلو اگین"،معاذ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"تم پھر سے"حیا نے غصہ ضبط کرتے ہوئے کہا۔
"یار میں اتنا بْرا بھی نہیں ہوں کہ تم مجھ سے بات کرنا حقارت سمجھو ،ہاں میں مانتا ہوں ہوں لڑکیوں کا لڑکوں سے دوستی کرنا خاصا بْرا مانا جاتا ہے ،مگر تمہارے فیشن سے تم کافی لبرل واقع ہوتی ہو اور تابش نے بتایا تھا کہ تمہارے ماما بابا امیرکن ڈاکٹرز بھی ہیں ،تو اس سے یہ تو ثابت ہوا کے تم کوئی زیادہ مشرقی ما حول کی نہیں ہو ،تو تمہارے پر نٹس کو بھی تمہاری کسی لڑکے کے ساتھ دوستی کرنا برا تو نہیں لگے گا نااتنا تو یقین ہے مجھے،بیٹھو "قریب پڑی کڑسی پر بیٹھتے ہوئے معاذ نے کہا۔
"ویسے میں امپریس ہوں کے تم نے میرے بارے میں اتنی ساری معلومات اِکھٹی کرلی ہیں ،اس کا مطلب یہ ہے کے میری جان اتنی آسانی سے نہیں چھوڑو گے اور مشرق اور مغرب میں رہنے سے کچھ نہیں ہوتا انسان کے اپنے نظریات ہوتے ہیں "اب کی دفعہ حیا نے نارمل لہجے میں بات کی،جب تک ویٹر اْن دونوں کے قریب آپہنچا۔
"دو کپ چائے!"معاذ نے ویٹر سے کہا جو "جی اچھا " کرتے ہوئے چلا گیا۔
"کس خوشی میں چائے منگوائی ہے؟"حیا ابھی بھی وہیں کھڑی تھی۔
"اب جلدی بیٹھو،ویسی میں نے الیکشن میں حصہ لینا ہے ،تم حصہ لوگی؟" اب کی دفعہ حیا سامنے والی کرسی پے بیٹھ گئی۔
"دوستیں تو بہت کہہ رہی ہیں مگر میرا کوئی ارادہ نہیں ہے ! آج پہلا دن ہے اور مجھے نہیں لینی کوئی ذمہ داری اپنے اوپر "حیا نے سوچتے ہوئے کہا۔
"تو مجھے ووٹ دو گی۔۔۔۔۔؟ اس کا جملہ مکمل ہونے سے پہلے ہی ویٹر آیااور حیا نے کے سامنے کپ رکھتے ہوئے اْسے غور سے دیکھنے کے چکر میں کپ لوڑکا دیا ۔
"پاگل ہو؟،ایسے کیا غور سے دیکھ رہے تھے میری دوست کو ،آئیندہ آنکھ اٹھا کر بھی دیکھا نہ تو آنکھیں نکا ل دوںگا سمجھے،شکل کیا دیکھ رہے ہو ،جاؤ!"معاذ کے غصے کو دیکھ کر ویٹر فوراٌ غائب ہوگیا ۔
"تمھیں لگی تو نہیں "معاذ نے آہستہ سےاپنے ہتھلی کو مسلتے ہوئے کہا۔
"آپ کو تو نہیں لگی؟درد ہورہا ہے؟" حیا شرمندگی اور دکھ سے آہستہ سے بولی۔
"واہ میں نے تو ایسے ہی اس ویٹر کو ڈینٹ دیا ،اْس کی وجہ سے میں "تم" سے "آپ" پر آگیا،یار چھوڑو اپنا نام بتاؤ میرانام پوچھو مجھ سے"معاذ نے ٹوپک کو تبدیل کرتے ہوئے کہا۔
"حیا ۔۔۔۔خان"حیا نے جھجکتے ہوئے کہا۔
"معاذ تسلیم" معاذ مسکرایا۔
"تو پھر دوستی اور ووٹ پکا؟"معاذ نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
"پکا"حیا نے بھی مسکراتے ہوئے بروقت جواب دیا۔
"تم یہاں اور وہ بھی اس کے ساتھ،واہ بھئی واہ چلو جلدی کلاس شروع ہونے والی ہے"آمنہ کی آواز پے حیا چونکی۔
"ہاں!چلو جلدی،اللہ حافظ" آخری فقرہ معاذ کو مسکراتے ہوئے بولا گیا۔
"سی یو سون"معاذ نے آنکھ دباتے ہوئے کہا۔
"یہ کیا سین ہے؟" آمنہ نے کینٹین سے نکلتے ہوئے پوچھا۔
"بس دوستی ہوگئی " حیا نے مسکراتے ہوئے کہا، ابھی تک حیا کے ذہن میں معاذ کی باتیں گونج رہی تھیں ۔
"دوستی ؟۔۔۔مجھے تو۔۔۔"آمنہ خفگی سے کچھ بولنے والی تھی کہ حیا نے چڑ کر بات کاٹی۔
"تم تو ایسے کہہ رہی ہو جیسے میں افیئر چلا رہی ہوں ،یار صرف دوستی ہوئی ہے اور کوئی وہ اسپیشل نہیں ہوگا ،ابھی آگے ہماری دوستی کیسی جاتی ہے مجھے کیا پتا۔"
"الٹا چور کتوال کو ڈانٹے !"آمنہ نے قدرے آہستہ سے بڑبڑایا جس پر حیا کی بے ساختہ ہنسی نکلی ۔"آمنہ تم بھی نہ!"۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
باقی کلاس میں بھی تعارف کے علاوہ کچھ نہیں ہوا،وہ تو ہر فرد کے بارے میں ایک ہی بات سن کر بیزار سی ہوگئی تھی۔
"یار یہ سب کب تک چلے گا؟"حیا نے چڑ کر امل اور آمنہ سے کہا ۔
"پتہ نہیں "امل سے بھی بیزاری چھپائی نہ جا سکی۔
"اوکے اسٹوڈنرس کل سے الیکشن شروع ہے،امیدوار سر شماس سے رابطہ کر سکتے ہیں اور جو لوگ نہیں کھڑے ہو رہے وہ بہت سوچ سمجھ کر اپنا فیصلہ لیں کیونکہ ہر ووٹ اہمیت رکھتا ہے۔ہونین الیکشن میں کھڑے ہونے والے طلبہ ذہین اور متاثر کن ہیں ،مگر جیتنے والا آپ کی یونیورسٹی کی نمائندگی کرے گا، اِس آل رائٹ ؟"پروفیسر جمشید نے سوالیہ نظریں کلاس میں دوڑائیں۔
"یس سر "سب نے بر وقت جواب دیا۔
"سی یو اِن نیکسٹ کلاس "مسکراتے ہوئے پروفیسر جمشید کلاس سے باہر گئے۔
"یار یونیورسٹی گھْومیں؟"آمنہ نے پرجوش ہوکے کینٹین کی کرسی سے اٹھتے ہوئے کہا۔"آئو چلو"حیا نے جواب دیا اور وہ تینوں کینٹین سے کافی کےکپ اٹھاتے ہوئے اپنے ڈیپارٹمنٹ کی طرف بڑھیں۔
"چلو یہ بزنس ڈیپارٹمنٹ بھی دیکھ ہی آتے ہیں ،وہاں سے ہوسٹلز بھی آتے ہیں وہ بھی دیکھ لیں گے۔"جب سوفٹ ویئر ڈیپارٹمنٹ مکمل ہوگیا تو امل نے کہا۔
"ہاں چلو" آمنہ نے فوراٗ کہا۔
"یار اور کتنا چلائو گے"حیا نے مداخلت کی ۔
"بڑھی اماں!چپ کرجاؤ"آمنہ نے چہک کے کہا۔
"دفعہ ہو" حیا منے منہ بسورا۔
"وہی تو ہو رہی ہوں"آمنہ نے چہک کر کہا۔
"یار۔۔۔۔!"حیا کافی بیزار ہوئی۔
اْوہو حیا کا ۔۔!"آمنہ نے مسکراہٹ دباتے ہوئے کہاَ
سامنے معاذ اپنے گروپ کے ساتھ کھڑا تھا اور اْسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔
"چپ کرو اور واپس مڑو"حیا نے آہستہ سے کہا۔
"راجر باس"آمنہ نے چہک کے کہا۔جبکے امل ابھی تک وہیں کھڑی تھی،معاذ کو اپنی طرف بڑھتا دیکھ کے بہت سے سائے منہ پہ آئے،مگر سب کچھ ضبط کیے کھڑی رہی پھر کسی خیال کے تحت پیچھے مڑ کے دیکھا حیا اور آمنہ کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔
"نام بدل کے اور نقاب کرکے کیا سمجھو ی میں پہنچانوں گا نہیں،اپنی مس مایا سعدی کو ؟؟"معاذ بالکل اس کے سامنے آکھڑا ہوا۔
"حیا سے دور رہنا "امل بامشکل بول پائی ۔
"ہاہاہا۔۔۔اْس سے میں نہیں تم دور رہو گی مایا ،تم رہوگی اٌْس سے دور "معاذ نے مسکراتے ہوئے کہا ۔
"تم۔۔۔۔۔میں تمہیں چھوڑوں گی نہیں ،سمجھے تم ہر چیز کا بدلا لوں گی اور امل نام ہے میرا سنا تم نے !"امل کی غصہ سے آواز بلند ہوگئی تھی۔
"باپ کی صورت بھولی نہیں تم؟پہلے باپ کو کھویا اب جب دوستوں کو سب پتا چلے گا تو اْن کو بھی کھو دو گی۔"معاذ نے قہقہہ لگایا ۔
"تمہیں یہی تو سکھایا گیا ہے،ماں بڑے عہدے پر فائز ہے تو تم لوگ جو چاہو کرو گے کیونکہ وہ ہیں نہ نکالنے والی ،تم قاتل ہو اور یہ ایک دن سب کو پتا چل جائے گا۔"امل نے اپنےت آنسو پیتے ہوئے کہا۔
"اس سے پہلے تم خود کہاں بچو گی"معاذ نے ایک اور قہقہہ لگایا۔
"تم۔۔۔" امل کے بولنے سے پہلے ہی آمنہ اور حیا وہاں آگئیں۔
"امل چلو ہم لیٹ ہو رہے ہیں "حیا نے بولا ۔
پیاری دوست!"معاذ نے مسکراتے ہوئے کہا۔Hey"
"ابھی میں بزی ہوں ،بعد میں بات کریں گے۔"حیا نے آہستہ سے بولا۔
"اوکے۔۔۔۔امل کا خیال رکھا کرو ،میری پرانی دوست رہ چکی ہے"معاذ کی بات سن کے امل نے تھوک نگلا۔
"جی اچھا۔۔ہم چلتے ہیں۔"حیا نے حیرت سے بولا اور وہ لوگ چل پڑیں۔
معاذ اْن تینوں کے جانے بعد اپنے دوستوں کی طرف مڑا اْن پانچوں میں سے تابش سے پوچھا "امل سے کیا بات ہو رہی تھی؟'
بس پرانا کچرا ہے سمیٹنا ہے۔"معاذ نے بات ٹال دی۔
ڈیپارٹمنٹ سے نکلتے ہی امل نے حیا سے کہا،"معاذ سے دور رہو وہ اچھا لڑکا نہیں ہے۔"
"یار۔۔میں نے صرف ایک دفعہ بات کی ہے اور تم دونوں بھی نہ"حیا نے چڑ کہا۔
"بس دور رہو "امل نے جلدی سے کہا ۔
"جی اچھا"حیا نے خفگی سے کہا ۔لیکن وہ کسی کی بات مانتی کہاں تھی۔آمنہ نے سوچا۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
بہار کا موسم اپنے اندر ایک الگ ہی خوشبو لے کے آیا تھا۔سورج بھی اپنا سامان باندھ کر گھر کی طرف روانہ ہو رہا تھا ایسے میں حیا گلاب کے پھولوں کے ساتھ کھڑی اپنی مسکراہٹ سے ہوتی تاریخی میں اجالے کا کام کررہی تھی ،سیاہ کلر کی نائٹی میں ملبوس ،نئے گلاب کو پانی دے رہی تھی ۔گھر میں چاہیں کتنے ہی ملازم ہوں لان کا کام وہ خود ہی کرتی تھی ۔
"بی بی آپ کا فوں "نزاکت نے سانس خالی کرتے ہوئے کہا،
نمبر دیکھ کر چونکی"unknown" ہوں،تم جاؤ"حیا سمجھی آمنہ کا ہوگا مگر
"جی؟"حیا دھیرے سے بولا۔
"حیا خان میں آپ کا خیر خواہ !،آپ کے لیے بہتر ہے کہ آپ اجنبیوں پر اعتماد نہ کریں،آپ محتاط رہیں اور نئے دوست بنانے سے احتیاط کریں ،شکریہ ۔"خوبصورت مردانہ آواز جوایک منٹ پہلے تک اس کے کانوں میں گونج رہی تھی ٹھک سے بند ہوگئی ،اس نے ایک دفعہ پھر سے غور سے نمبر کو دیکھا اور بڑبڑائی ،
"پاگل تھا؟،سنکی!"اور پھر دوبارا سے گلابوں کو پانی دینے میں مصروف ہوگئی۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ایک ہفتے بعد:
واصل بھی بزنس ڈیپارٹمنٹ میں معاذ کے ساتھ ہی تھا ،معاذ کا گروپ چار لڑکوں پر مشتمل تھا،واصل بھی اس گروپ کا حصہ تھا اور اِن پانچوں میں سے صرف واصل اور معاذ یونین الیکشن کا حصہ تھےاور آج تقریر ،ووٹینگ اور الیکشن کا رزلٹ تھا،اسی لیے ہر طرف گہما گہمی تھی۔ایسے میں حیا گلابی رنگ کی فراک میں بے انتہا خوبصورت لگ رہی تھی ۔
"یار حیا"آج تم واقعی کسی کی حیا(زندگی)لگ رہی ہو ۔"آمنہ کی بات پر امل نے بھی تاکید کی ۔
"چپ کرجاؤ،دوستیں تعریف نہیں کرتیں"حیا کی بات سن کر امل اور آمنہ ہنس پڑیں
"تقریر شروع ہوگئی ،حیا کے ہیرو کی!"آمنہ چہکی ،جس پر حیا نے بے اختیارگردن اٹھا کے سامنے دیکھا۔
بلیک ڈرس شرٹ اور پینٹ پر کوٹ پہنے معاذ بے حد اسمارٹ لگ رہا تھا۔
"واہ،بلیک اینڈ ریڈ کا مبینیشن۔"آمنہ پھر سے چہکی ،جس پر حیا نے اسے خفگی سے گھوراجبکے امل معاذ کو چھپتی ہوئی نظروں سے دیکھنے لگی۔
"میں یونین الیکشن میں ایک امیدوار سے طور پر نہیں ۔۔۔" معاذ مسکراتے ہوئے بول رہا تھا۔
"تم واقعی امیدوار کے طور پر نہیں کھڑے ہورہے تم بس ہمیشہ کی طرح اختیار چاہتے ہو۔"امل بڑبڑائی۔
"مجھے آپکے ووٹ کی ضرورت ہے تاکہ۔۔۔۔"معاذ بولے جارہا تھا۔
"میں دوں گی تمہیں ووٹ ،معاذ میں دوں گی اور جتائوں گی تمہیں "امل بڑبڑائے جا رہی تھی۔
"ایک نمائندے کے طور پر میں آپ کی ہر مشکل میں مدد۔۔۔"معاذ اب چلتے ہوئے بول رہا تھا۔
"میں پکاروں گی تمہیں ،مدد کے لیے نہیں موت کے لیے ،میں تمہاری موت ہوں ،وہ مایا تھی جو تمہاری زندگی تھی یہ امل ہے جو تمہاری موت ہے"امل مسکرارہی تھی۔
"آپکو محبت کرنے والا لیڈر چاہیے ،تو آج آپ ووٹ ۔۔۔"معاذ بھی مسکرا رہا تھا۔
"تم جس سے محبت کرتے ہو ،اسی سے نفرت کرتے ہو،تم جیتو گے اور پھر محبت کو نفرت میں تبدیل کردو گے،اور میں !میں انتظار کروں "امل امل کی مسکراہٹ گہری ہو رہی تھی،وہ صرف معاذ کو دیکھ رہی تھی۔
"میں آپ سب کا قدم قدم پر ساتھ دینے کا وعدہ کرتا ہوں "معاذ بولے جارہا تھا ۔
"میں بھی وعدہ کرتی ہوں کے تمہیں بھولنے نہیں دوں گی ،تڑپا تڑپا کے ماروں گی"امل اپنی دھن میں مگن تھی۔
"میں اپنے جیتنے کا انتظار کروں گا،شکریہ"معاڈ اسٹیج سے اتر رہا تھا۔
"میں بھی انتظار کروں گی"امل بھی تالیاں بجا رہی تھی۔
"زیادہ اچھی نہیں تھی تقریر "حیا مایوس ہوئی۔
"اس کی سنو اچھی کررہاہے،کیا نام ہے،ہاں!واصل عثمانی "آمنہ بولی۔
واصل جامنی کلر کا شلوار قمیص پہنے بال رہا تھا،
"ہوں۔۔۔اچھا ہے،مگر اسے ووٹ کم ملیں گے،کیونکہ آدھے سے زیادہ لوگ شکل دیکھ کے ووٹ دے رہے ہیں ،اس کے ساتھ لڑکی بھی کوئی زیادہ اچھی نہیں کھڑی ہوئی،جبکہ معاذ کے ساتھ محوش کھڑی ہے،خاصی خوبصورت ہے۔"
"ہاں،لیکن میں ووٹ فضیل کو دے رہی ہوں اور امل ،حیا تم کسے دوگی؟"آمنہ بولی۔"میں سوچوں گی"حیا بولی۔
"میں معاذ کو"امل نے مسکراتے ہوئے وعجیب سے انداز سے کہا۔
"واہ۔۔۔۔گڈ!"آمنہ نے حیرت سے حیا کو دیکھتے ہوئے کہا جیسے پوچھ رہی ہو اسے کیا ہوا؟۔حیا نے بس کندھے اْچکائےدئیے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یونیورسٹی میں دوپہر کے وقت الیکشن میں جیتنے والوں کا نام پکارا جا رہا تھا،حیا نے معاذ کو ووٹ دیا تھا کیونکہ کوئی اور اْسے سمجھ نہیں آرہا تھا،ابھی بھی وہ معاذ کے بالکل پیچھے کھڑی تھی۔بے اختیار حیا نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے۔
"اللہ تعالی،آپ معاذ کو جیتنے دیں ،پلیز!"حیا نے کسی معصوم بچے کی طرح دعا کی اور پھر ایک لمحے کے لیے چونکی اْس نے معاذ کے لیے کیوں دعا کی؟(چھوڑو ) اور اْس نے سارے خیال جھڑک دیئے۔
ہمارے اس سال کے یونیورسٹی کے یونین الیکشن کے فتح پائے ہیں "معاذ تسلیم اور محوش ہادی ،کل یہ لوگ حلف اٹھائیں گے،مبارک ہو آپ دونوں کو "پروفیسر شماس بول رہے تھے جبکہ معاذ اور محوش اپنے دوستوں سے گلے ملنے میں مصروف تھے ۔
"آپ ووٹ نہ دیتیں تو میں کبھی نہیں جیتا"معاذ کی آواز پر حیا چونکی ،حیا کیفے میں چائے پی رہی تھی،جب وہ سامنے آکھڑا ہوا۔
"میں بھی یہی سوچ رہی تھی"حیا شرارت سے مسکرائی ۔
"تو آپ میرے بارے میں سوچنا بھی شروع ہوگئیں ؟"معاذ آنکھ دباتے ہوئے بولا۔
"ایسی بات نہیں ہے !"حیا خفگی سے بولی۔
"میرے دوستوں سے ملیں گی؟"معاذ نے موضوع تبدیل کیا۔
"ام۔۔ٹھیک ہے "حیا نے چائے ختم کرتے ہوئے اٹْھ کھڑی ہوئی ۔"لیکن واپسی پر کافی آپ کی طرف سے ،اب چلیں !"معاذ کی بات پر حیا "ہوں "کہتے ہوئے آگے بڑھ گئی ۔
راستے میں معاذ حیا کو الیکشن کے بعد کی ذمیداریوں کے بارے میں بتاتا جارہا تھا۔
"یہ پانچوں میرے گروپ ممبر ہیں "معاذ اپنے دوستوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
حیا نی شرارت سے مسکراتے ہوئے کہا۔ "The best group is the group of three"
"اچھا،تو بتائیں کس کس کو نکالوں اپنے گروپ سے؟"معاذ نے مسکراتے
ہوئے کہا ۔
"جسٹ جوکنگ!"حیا نے ہنستے ہوئے کہا۔
"اب انٹرو کرواؤں؟"معاذ نے سوسالیہ نظریں گہمائیں جس پر حیا نے اثباب میں سر ہلایا۔
"تابش خان ،اس کو جانتی ہوگی،یہ حسن کمال ہے "دبلا پتلا سا لڑکا تھا،جم میں کچھ بھی خاص نہ تھا۔عثمان راشداور یہ واصل عثمانی ہے۔"اس نے ہر ایک پر اشارہ کرتے ہوئے بتایا۔
"سب ایک ہی ڈیپارٹمنٹ میں ہیں سوائے تابش کے ، یہ تمہارے ڈیپارٹمنٹ میں ہے۔"
حیا نے مسکراتے ہوئے کہا،جس پرسب نےسرکوخم کیا"Nice to meet you all"
"ہم چلیں ؟"حیا نے معاذ کو سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
"چلو"معاذ نے مسکراتے ہوئے اپنے دوستوں کو دیکھا اور وہ دونوں چلے گئے۔
"یہ معاذ اور حیا کے بیچ کچھ چل رہا ہے؟ایک ہفتہ پہلے معاذ نے اس سے بات کرنے کی کوشش کی تھی میں اور حسن ساتھ تھے،تب تو حیا نے بات نہیں کی تھی اور اب گھم رہی ہے اس کے ساتھ !"تابش نے حیرت سے کہا۔
"ہمیں کیا !"عثمان نے بیزاری سے کہا اور پھر سب باتیں کرتے رہے،صرف واصل چپ چاپ کھڑا رہا۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کیا زندگی اتنی خوبصورت بھی ہوسکتی ہے؟یہ حیا کو پچھلے ایک مہینے میں پتا چلا تھا،حیا اور معاذ یونیورسٹی میں ہی باتیں کرتے تھے مگر آج معاذ نے اْسے ڈنر کا کہا تھا،وہ بس اْسے انتظار کروانا چاہتی تھی وہ ابھی بھی ان ہی خیالوں میں مگن تھی کےفون بج اٹھا ۔
کالنگ"حیا بستر سے اٹھی اور بیڈ ٹی لیتے راہداری میں آگئی۔Unknown no"
"جی ؟"حیا نے خشک لہجے میں پوچھا۔
"جی آپ سمجھی کیوں نہیں ؟" مردانہ آواز ابھری۔
"آپ کیوں نہیں سمجھتے،آپ کے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟آپ کی اس مہینے کی پانچویں کال ہے،مجھے نقصان ہوگا نہ تو ہونے دیں اور مجھے اپنی زندگی جینے دیں "حیا نے فون کاٹ دیا۔
"پتا نہیں کیا مسئلہ ہے!"حیا بڑبڑائی۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
آج سورج سفید گھر پر پوری طرح بیدار ہو چکا تھا،
ایسے میں اسمارہ بیگم اپنے دوستوں کے گپ شپ کرتے با ربار کان میں پہنےنئے ڈائمنڈ ایئر رنگز کو ہلکے ہلکے سے ہلا رہی تھیں۔
"اسمارہ یہ ایئر رنگز کہاں سے لیے؟"بزنس پارٹنر رمشا نےپوچھا۔
"بس تم تو جانتی ہو میری پرانی عادت ہے قیمتی چیزیں جما کرنے کی"اسمارہ پراسرار انداز میں مسکرائیں ۔
دور کہیں انہیں بہت کچھ یاد آیا تھا"چھ سال پہلے"
مناہل آپ کے ایئر رنگز کافی خوبصورت ہیں!"اسمارہ جو بلک کلر کا گاھون پر بے تحاشہ میک اپ کئے سامنے بیٹھی سادہ اور سوبر سی مناہل سے مخاطب تھیں جو لان کا کڑھائی والا سوٹ پہنے بے تحاشہ خوبصورت لگ رہی تھیں ۔
"انہوں نے اینیورسری پر دلائے تھے ،ترقی ہوگئی ہےنہ۔"
"واہ مبارک ہو آپ کو !سعدی صاحب ،مایا کہاں ہیں ؟بلائیں نہ اسے بھی !"اسمارہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"میں جانتی ہوں !"رمشا کی بات پر اسمارہ چونکی اور مسکراتے ہوئے سر کو خم دیا۔
دور کہیں چھوٹے باغیچے والے گھر میں آج کافی خاموشی تھی،سب اپنے اپنے کمرے میں سو رہے تھے،ایسے میں واصل اپنے کمرے میں کھڑکی سے باہر باغیچے کو دیکھ رہا تھا ،ساتھ میں چائے کے بھی چند سپس لے رہا تھا ،آج اتوار کا دن تھا اور حسبِ معمول وہ سب سے پہلے جاگ چکا تھا ۔
"حیا خان!"واصل بڑبڑایا،اور سامنے بیڈ پر پڑے لیپ ٹاپ کے بورڈ پر انگلیاں چلا نے لگا۔
اْس نے اپنی ڈی پی کیا لگائی ہوگی ،سامنے بہت ساری حیا خان کے نام کی لڑکیوں کی پروفائل دیکھتے ہوئے واصل بڑبڑایا۔
ہر ایک کو چیک کرتے کرتے ،حیا کی تصویر پر جا رکا اور کلک کیا۔
سامنے اسکرین پر لکھا آرہا تھا۔"This account is private"
"ڈیم اٹ" واصل نے لیپ ٹاپ یونہی بند کردیا اور سامنے دیکھنے لگا۔
" باغیچے والے گھر سے آگے جائو تو "سعدی منزل میں امل کتاب لکھنے میں مصروف تھی،"ہوں ۔۔۔نہیں اس طرح کسی کو شک ہوجائے گا،ہاں ۔۔۔۔اس طرح ،یار واٹ دی ہیل!"امل کتاب پر نقشے بناتے بناتے بڑبڑارہی تھی۔
"بیٹا !کب تک اپنے آپ کو پریشان رکھو گی؟"مناہل نے دکھی نظروں سے امل کو دیکھا۔
"جب تک اپنے باپ کے خون کا بدلہ نہیں لوں گی!"امل نفرت سے بولی۔
"تمہارے باپ کا قتل نہیں ہوا تھا،اْسے ہارٹ اٹیک ہوا تھا"مناہل نے بے بسی سے بھگتی آواز میں کہا۔
"میں جانتی ہوں ،امی میں سب جانتی ہوں "امل سادگی سے بولی ۔
مناہل امل کو بھیگی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے بڑبڑائیں"میں تمہیں کھونا نہیں چاہتی امل۔"
"امی،ابا کی موت میری وجہ سے ہوئی،میری وجہ سے!"امل رو پڑی۔
"نہیں تمہارا باپ تم سے خوش مرا ہے"مناہل کھوئی کھوئی سی بولیں۔
خوش تھے تو میں انہیں اور خوش کرنا چاہتی ہوں"امل بھیگی آواز میں بولی۔
"میں بس تمہیں کھونا نہیں چاہتی!"مناہل نے ہار مان لی اور آنسو جو پی رہی تھیں سب باہر نکال دیے۔
"میں آپ سب کو کھونا نہیں چاہتی ہوں میں جو کر رہی ہوں ،کرنے دیں"امل با مشکل بول پائی۔
مناہل امل کا جملہ مکمل ہونے سے پہلے ہی بچوں کی طرح ڈوڑتی ہوئیں اپنے کمرے میں چلی گئیں۔
"میں قربانی دوں گی ،آپ کے لیےامی،محسن کے لیے،طاحہ کے لیے۔"امل نے آہستہ سے بولا۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یونیورسٹی میں ہونے والی پکنک میں حیا جارہی تھی اِسی لیے قصرِ خان میں فجر ہونے سے پہلے ہی سورج آپہنچنا تھا،پورا قصر روشنیوں میں نہا رہا تھا۔
"نزاکت یہ والے کپڑے بھی استری کرو میں نہانے جا رہی ہوں کپڑے ہینگ کردینا"حیا نزاکت پر حکم سردار کررہی تھی۔
"بی بی آپ نے چاکلیٹ کا ڈبا ما نگوایا تھا،آپ نے کہا تھا یاد دلادوں "پروین بھاگی ہوئی حیا کے پاس آئی ۔
"شکریہ پروین !مجھے یاد ہے"حیا نے مسکراتے ہوئے جواب دیاجس پر پروین نے حیرت سے دیکھا۔ جب تک حیا باتھ روم میں گھس چکی تھی۔
"بی بی کو کچھ ہوگیا ہے،چاکلیٹ کے ذکر پر ایسے مسکرا رہی تھیں جیسے بہت خاص ہو"پروین نزاکت کے قریب آکے بولی۔
"بی بی کل سے بڑی خوش ہیں ،اللہ جانے کیا بات ہے "نزاکت بھی بول پڑی۔
"کہیں کوئی چکر وغیرہ تو نہیں ۔۔۔۔"پروین کی بات نزاکت نے درمیان میں سے کاٹ دی ۔
"نہ با با نہ!حیا بی بی تو کسی کو منہ ہی نہیں لگاتیں،ایک سے ایک خوبصورت لڑکا اْن کے پاس آتا ہے،مگر دیکھا تو نے کبھی؟"
"ہاں چل یہ بات تو ہے"پروین بولی ۔
"نزاکت کپڑے؟"حیا کی آواز پر نزاکت کے ہاتھ تیز تیز چلنے لگے ۔
"آیا بی بی جی"نزاکت دوڑتا ہوا حیا کے کمرے کی جانب بڑا۔
خوبصورت پرپل ٹی-شرٹ کے نیچے بلیک جینز پہنے حیا ،باتھ روم سے باہر نکلی،
"واہ بی بی جی واہ ،بہت سندر لگ رہی ہیں آپ ،پروین جو اْس کا کمرہ سمیٹ رہی تھی بے اختیار بولی۔
"تھینک یو!"حیا مسکرائی۔
"بی بی جی ناشتہ لگائوں ؟"پروین پھر بولی۔
"ہاں !اور ماما بابا کو بھی بلا لینا"حیا بولی اور پروین جی اچھاکرتی کمرے سے نکل گئی۔
"آج میں تمہیں اپنا دوست بنائوں گی یا چھوڑ دوں گی ،معاذ تسلیم"حیا بالوں پر برش کرتی بڑ بڑائی۔
کچھ لمحے بعد سب اپنی اپنی کرسیوں پر براجمان ملازموں کو ناشتہ لگاتے دیکھ رہے تھے۔
عائلہ ملازمین کو اشارہ کرتیں اور وہ سب چلے جاتے۔
"کیا بات ہے حیا،غیر معمولی طور پر بڑی خوش ہو"عائلہ فاروق کی طرف تاکیدی نظروں سے دیکھتے ہوئے مسکرائیں۔
"جی،آج تو میری بیٹی چاند کا ٹکڑا لگ رہی ہے !"فاروق حیا کو پیار کرتے ہوئے بولے۔
"بابا ماما"حیا نے شرماتے ہوئے سر پر ہاتھ رکھا،
"ارے بتائو نہ کون ہے وہ جس کی وجہ سے ہماری نکچیڑی بیٹی ہر وقت مسکرانے لگی ہے؟"عائلہ ہنستے ہوئے بولیں۔
"آپ دونوں کہیں سے بھی میرے ماں باپ نہیں لگتے ۔بھلہ ایسے بھی کوئی باتیں کرتا ہے اپنی بیٹی سے؟"حیا نے مسکراتے ہوئے افسوس میں
سر ہلایا۔
"اچھا سب چھوڑیں یہ بتائیں کے آپ لوگ اتنی جلدی کیوں واپس جارہے ہیں؟"حیا نے موضوع بدلنے کی کوشش کی۔
"بس تمہاری ماما کو لوگوں کو "ممی"بنانے میں بہت ٹائم لگتا ہے اسی لیے جلدی جارہے ہیں اور مجھ معصوم کی بھی سیمینارز ہیں؟"فاروق حسبِ معمول اچھے موڈ میں تھے۔
"بس کردیں آپ میری سرجریز اگر واقعی خوفناک ہوتیں تو لوگ قطاروں میں لگ کر نہ آتے"عائلہ خفا خفا سی بولیں ۔
"مسس فاروق خان آپ کے شوہر ِمحترم آپ سے مذاق کررہے تھے برائے مہربانی معاف کردیں۔"فاروق کان پرذ کر بولے حیا اور عائلہ بے اختیار مسکرائے۔
"سب چھوڑو اْس کے بارے میں بتائو کون ہے؟کیا نام ہے؟"عائلہ حیا سے بولیں۔
"صائمپل"حیا بنا کسی تمہید کے سادگی سے بولی۔
"لڑکا ہے؟" عائلہ بولیں،جبکہ فاروق نے غورسے حیا کو دیکھا۔
"جی!"حیا نے پھر سادگی اختیار کی۔
"کیا کرتا ہے؟"اس دفعہ فاروق صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"کھاتا ہے،سوتا ہے،بولتا ہےنہاتا ہے،سب کچھ کرتا ہے"حیا سادگی سے بولی ،جبکہ عائلہ شوہر اور بیٹی کو حیرت سے دیکھنے لگیں۔
"کہاں تک پڑھا ہوا ہے؟"فاروق صاحب نے پوچھا۔
"بلیوں کی ساری کیرنگ کلاسز اٹینڈ کی ہوئی ہیں "حیا اس دفعہ مسکرائیں۔
"یہ جو نئی بلی پالی ہےْاس کی بات کر رہی ہو؟"عائلہ کو جیسے شوک لگا۔
"جی مما!"حیا قہقہے لگاتے ہوئے بولی۔
اے خدایا!یہ لڑکی کب سنجیدہ ہوگی!"عائلہ نے سرد آہ بھری۔
"ہوگئی سنجیدہ"حیا نے بڑی سنجیدگی سے بولا۔
اب کی دفعہ دونوں ہنس رہے تھے !وہ جانتے تھے کے حیا ان کی نارمل اولاد نہیں ہے،اْس میں بہت کچھ خاص ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
حیا یونیورسٹی آمنہ کے ساتھ پہنچی تھی،دونوں نے ایک ہی کلر پہن رکھے تھے،پرپل قمیض کے نیچے بلو جینز پہنے آمنہ بھی اچھی لگ رہی تھی۔امل نے آنے سے منع کردیا تھا،مجھے اپنا حجاب اتارنا پڑھے گا اور میں اتنا لبرل ہونا افورڈ نہیں کرسکتی"امل نے کہا تھا آمنہ سے جب اْس نے امل سے پکنک میں آنے کا پوچھا تھا۔
"حیا تم تو چھا گئی!"آمنہ نے رشک کی نظروں سے دیکھا۔
"کہا نہ دوستوں کی تعریف نہیں کرتے"حیا مسکرائی۔
"چلو یہاں گرائونڈ میں بیٹھ جاتے ہیں "آمنہ بولی اور وہ دونوں وہیں بیٹھ گئیں۔
یہاں بیٹھے انہیں ابھی چند لمحے ہی گذرے تھے کے بلیک اینڈ گیر رنگ کی گول گلے کی شرٹ کے نیچے ڈارک پرپل پینٹ پہنے ،معاذ تسلیم چلتے ہوئے آرہا تھا،جس نے آتے کے ساتھ ہی کندھے پر لٹکا بیگ سائڈ پر رکھا اور سامنے کھیلتے فٹ بالرز کے ساتھ خود بھی فٹ بالر بن گیا۔
"اْوجی واہ!فٹ بال تو اچھی کھیلتا ہے تمہارا ہیرو"آمنہ چہکی۔
"ہاں یار!"حیا کی آنکھیں اْسے کھیلتے ہوئے بڑے غور سے دیکھ رہی تھیں۔
"کافی ہینڈسم ہے تمہارا ہیرو!"آمنہ نے اْسے غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
"واقعی،وہ تو ہے!"حیا اپنی ہی دھن میں مگن تھی،آمنہ چونکی۔
"تمہیں کیا پسند ہے یہ؟آمنہ نے غور سے حیا کو دیکھا۔
"شاید مجھے لگتا ہے!"حیا کی آنکھیں معاذ پر ہی مرکوز تھیں۔
"اور محبت؟"آمنہ بولی"نہیں مجھے اس کی کوئی چیز بہت زیادہ اپنی طرف کھینچتی ہے "حیا بولی۔
"تو تم کیا معاذ سے محبت کرنا چاہتی ہو؟"آمنہ بولی اتنے میں معاذ نے کھیل ختم کردیا اور اپنے بیگ اٹھانے کے لیے دوسری طرف مڑا تو،حیا چونکی ۔
دھیرے دھیرے اس کے شل اعصاب بیدار ہونے لگ گئے ،اس نے آنکھیں مسلیں۔
پھر اِدھر اْدھر دیکھا ۔وہ اسی سادگی سے اْسے دیکھ رہی تھی ۔
"کیا میں ۔۔۔؟"وہ پوچھ نہیں سکی ،وہ حیران تھی ،وہ اچھنبے میں تھی۔
"میں نے کچھ نہیں کیا،تم معمولی سے عالمِ تذیم میں تھی ۔جیسے کوئی کتاب پڑھتے ہوئے اسی میں کھو جاتے ہیں،ایسی ہی تم بھی گہرے خیا ل میں تھی۔
؟"حیا مطمئین تھی مگر تھوری سی حیران بھی تھی۔hypnosis "تم نے کیوں کیا مجھے
"تم جانتی ہو کے اگر تم نہیں کروانا چاہتی تو میں کبھی نہیں کرسکتی تھی،تمہارا دل ہلکا ہوگیا نہ؟"آمنہ سادگی سے بولی۔
"ہاں شکریہ تمہارا،اور ویسے تم سے کیا چھپانا؟" حیا معصومیت سے بولی۔
"گڈ،میں آتی ہوں"آمنہ بولتے ہی چلی گئی اور حیا وہاں تنہا رہ گئی۔
حیا موبائل پر بے مقصد انگلیاں چلا رہی تھی کے اس کی نظر اپنی طرف آتے جوگرز پر پڑی ،جب وہ بلکل اْس کے سامنے آکر رکے تو حیا نے سر اٹھایا۔
سامنے معاذ تسلیم کھڑا تھا "میں بھلا تمہیں کیسے بھول سکتا ہوں؟دور سے ہی نظر پڑی تو چلا آیاکیونکہ آپ خود تو کبھی نہیں آتیں"معاذ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"جی وہ آپ کھیلنے لگے تھے تو میں۔۔۔"حیا جو شرمندگی سے بول رہی تھی معاذ نے اکتاہٹ سے اْس کی بات کاٹی۔
"میں جس حیا سے پہلے دن ملا تھا ،وہ شرمندہ یا ڈری سہمی سی نہیں رہتی تھی ،وہ بہادر تھی۔تمہیں کیا ہوگیا ہے؟"معاذ نےہنستے ہنستے اْس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیےاور اْسے قریب بینچ پر لے آیا ،ہاتھ اْسی طرح معاذ کے ہاتھ میں تھے۔
"بیٹھو !"معاذ نے حیا کا ہاتھ چھوڑ دیا،جس پر حیا کا دل چاہا کے اْسے بتائے کہ اْس کے ہاتھوں کا لمس کتنا سکون دے ہے!
"تم سرخ کیوں ہو رہی ہو ؟اگر تم شرما رہی ہو تو یہ حیا کا کام نہیں ہے "معاذ اْسے خوب انجوائے کررہا تھا۔
"ام۔۔۔۔م"حیا سے کچھ بولا نہیں جارہا تھا ۔
"معاذ معصومیت سے بولا اپنا نمبر نہیں دوگی حئے (
؟"حیا کو کچھ اچھا لگا تھا۔(Hayee)"حئے
معاذ مسکرایا۔"یہ تمہارا مک نیم ہے آج سے"
حیا بے اختیار بولی۔"مجھے بہت اچھا لگا مادو"
معاذبولا۔ "اب آپ کا نمبر مل سکتا ہے؟"
حیا نے میز پر رکھے اْسکے موبائل پر اپنا نمبر حئے کے نام سے سیف کردیا " why not"
آج بہت خوبصورت لگ رہی ہیں"معاذ نے پہلی مرتبہ اس کی تعریف کی۔
"آپ بھی!"حیا کی سفید رنگت پر سرخ رنگ ابھرتا ہوا خوبصورت لگ رہا تھا۔
"تم اتنی معصوم ہو یا میرے سامنے بنتی ہو "معاذ چہک کر بولا۔
"ایسا نہیں ہے میں ہوں ہی معصوم"حیا خفا سی ہوئی۔
"میں جانتا ہوں"معاذ بولا۔
"اچھا میں چلتی ہوں!"حیا اٹھنے ہی والی تھی کے معاذ نے اْس کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھا۔
"میں انتظار کروں گا"معاذ کا جملہ مکمل ہونے سے پہلے ہی ہاتھ چھوڑا کر گراؤنڈ کی طرف بھاگ گئی ۔ منطر پیچھے بیٹھے معاذ کے دوستوں نے بھی دیکھا۔معاذ کھڑا ہوا اور ان کی طرف بڑھ گیا۔
"کس نے کہا تھا کہ میری باتیں سنو" معاذ خفگی سے بولا۔
"ایسی !کیا تمہیں پسند ہے حیا؟"حسن کمال نے پوچھا ۔
"ہاں !کسے پسند نہیں ہوگی؟"معاذ مسکرایا۔
"تم خوش ہو؟"واصل بول اٹھا۔
"ہاں،کافی خوش ہوں"معاذواقعی خوش تھا۔
واصل بولا۔ "Best of luck my friend"
معاذ مسکرایا۔ " شکریہ "
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
بس فارم ہاؤس میں پہنچی ہی تھی کے حیا کا موبائل چمکا"تم سے ملوں گا کیسے؟لڑکے اور لڑکیوں کا پورشن الگ ہے "حیا میسج پڑھ کر مسکرا دی۔
"لڑکوں کا پول اور لڑکیوں کا پول الگ تھا جس کی وجہ سے حیا نے سکون کا سانس لیا تھا(کم از کم کچھ وقت تو میں نارمل ہو کے گزار لوں گی)حیا نے سوچا۔
"مجھے تو پتا تھا لڑکوں کا الگ ہوگا ،بھلا لڑکیوں کے ساتھ نہائیں گے کیا؟"آمنہ ہنستے ہوئے بولی ،وہ بھی معاذ کا میسج پڑھ چکی تھی۔
"ہاں شکر ہے!ورنہ میں تو سوچ کے آئی تھی کے نہائوں گی نہیں اور ابھی بھی کوئی موڈ نہیں ہے "حیا بولی۔ابھی ناشتہ ختم ہوا تھا اور لڑکیاں پول کی طرف بھاگیں تھیں۔
"چلو چائے یہاں پارک کی بینچ پر پی لیتے ہیں!" آمنہ کی بات سنتے ہی حیا پارک کی طرف بڑھی۔
"موسم اچھا ہے نہ"حیا کی بات پر آمنہ نے سر اثباب میں ہلایا۔
"اگر تم دونوں پردہ کرتی ہو تو کرلو ،لڑکوں کا یہاں ہی ناشتہ ہوگا؟"برنس ڈیپارٹمنٹ کے ایک پروفیسرنے بولا۔
"نہیں سر ہم نہیں کرتے"آمنہ کی بات سنتے ہی پروفیسر چلے گئے۔
"تو کیا؟"آمنہ نے سوالیہ نطروں سے حیا کو دیکھا۔
"کیا اب ہم یہاں بھی نہیں بیٹھیں گے؟چلو چائے انجوائے کرو"حیا کی بات پر آمنہ "جی اچھا "کہہ کر چپ ہوگئی۔
کچھ ہی دیر میں اندر کا ہا ل لڑکوں سے بھر گیا،اور وہ دونوں چائے ختم کرنے کے بعد اپنے کپڑے چینج کرنے چلی گئیں۔
آمنہ چینج کرنے کے بعد ہی پیر گیلے کرنے چلی گئی تھی اور حیا بخوبی جانتی تھی کے اس کا پیر گیلا کرنا کیسا ہوتا ہے۔
حیا کا نہانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا مگر پھر بھی اْس نے چینج کرلیا تھا،گرے شرٹ پر کھلے بال کمر کے پیچھے گرے ،بلیک ٹرائوزر کے جیب میں ہاتھ ڈالے وہ بے حد حسین لگ رہی تھی۔
ووہ ابھی ابھی اپنے مقرر ہ کمرے سے باہر نکلی ہی تھی کے ٹٹھک گئی،سامنے معاذ اور تابش کھڑے تھے۔
(ہمیشہ کی طرح خوبصورت)" hermosa para siempre "
معاز نے اْسے دیکھتے ہی مسکراتے ہوئے کہا۔
"میں تم لوگوں کی پرائویسی میں تو؟"تابش کی بات درمیان میں کاٹ کے معاذ بولا۔
"ہاں جاؤ"تابش کے جاتے ہی معاذ دو قدم آگے اْس کی طرف آیااور ہاتھ حیا کی طرف بڑھایا ،جسے حیا نے بڑے اعتمادسے تھام لیا۔اب معاذ کا ہاتھ تھامنا اْس کے لیے نیا نہیں تھا۔
"حیا؟"معاذ نے پارک کی طرف چلتے ہوئے اْسے پکارا۔
" جی!"حیا کچھ زیادہ ہی سرخ ہورہی تھی۔
"تم اس طرح زیادہ کیوٹ لگتی ہو"معاذ اس کے شرمانے سے محظوظ ہوا ۔
"آپ میری کچھ زیادہ تعریف نہیں کرتے "حیا نے شرارت سے کہا۔
"تم چاہتی ہو نہیں کروں؟"معاذ مسکرا کر بولا۔
"نہیں۔۔۔میرا مطلب ۔۔چھوڑیں"حیا یک دم گڑبڑا گئی۔
"ویسے جب میں نے تمہیں پہلی مرتبہ دیکھا اور بات کی نہ تو مجھے لگا تم سے دوستی ناممکن ہے،مگر اللہ اس ویٹر کو جنت میں جگہ دے کہ اْسی کی وجہ سے آج "حیا "مجھ سے شرمارہی ہیں۔میں جب بھی اْس ویٹر کو دیکھتا ہوں دعا ضرور دیتا ہوں۔"معاذ کوشگوار موڈ میں تھا۔
"آج آپ موڈ میں ہیں"حیا نے مسکراتے ہوئے معاذ کی طرف دیکھا۔
"واقعی آج تم بہت خوبصورت لگ رہی ہو،اْس پر تمہیں کسی دوسرے کےساتھ نہیں دیکھ سکتا۔اسی لیے کب سے تمہارے ساتھ واک کر رہا ہوں۔"معاذ اْس کے تاثر دیکھ کر یک دم چپ ہوگیا۔
"میں آپکو اس قسم کی لڑکی لگتی ہوں کے کسی بھی لڑکے کے ساتھ گھمنا شروع کردوں گی۔آپ وہ پہلے مرد ہیں جس سے میں نے کوئی تعلق رکھا ہے اور اس تعلق کی بھی ایک حد ہے ،میں منہ اٹھا کر آپ کے ساتھ نہیں چلنے لگی ،حالات اور قدرت نے ہمیں خود ایک ساتھ کیا ہے۔"حیا غصے میں تھی مگر اْس کی آواز اب بھی دھیمی ہی تھی۔
"یار ۔۔۔میرا یہ مطلب نہیں تھا،میں جانتا ہوں کے میں کتنا خوش قسمت ہوں جسے آپ نے منہ لگایا"معاذ اْس کے موڈ ٹھیک کرنے کی کوشش کی اور ناکام تو وہ کبھی نہیں ہوا کرتا تھا۔
"سوری میں روڈ ہوگئی "حیا کو فورا احساس ہوااور وہ شرمندہ ہوگئی ،معاذ کچھ جواب میں کہتا اس سے پہلے ہی آمنہ وہاں آٹپکی۔
"حیا کے منہ سے "سوری"معاذ میں قسم کھا کر کہہ سکتی ہوں کے جب سے میں نے حیا سے دوستی کی ہے ،میں اس کے منہ سے "سوری "نہیں سنا بلکہ اس نے تو کبھی بھی مجھے سوری نہیں کہا ۔میں واقعی متاثر ہوئی اپ سے کہ حیا جیسی بندی آپ کو سوری کہہ رہی ہے"آمنہ نے رشک کے انداز میں معاذ کو دیکھا جس پر اْس نے بے آختیار قہقہہ لگایا جب کے حیا کو آمنہ پر بے انتہا غصہ آیا۔
"میں کیا کہہ سکتا ہوں،اچھا میں چلتا ہوں میں نے بھی نہانہ ہے اور تم بھی انجوائے کرو "معاذ نے ہنستے ہنستے کہا۔وہ اس گفتگو سے محظوظ ہوا تھا۔
معاذ کے جانے کے بعد حیا آمنہ پر برس پڑی "تم بھی نہ،وہ کیا سوچے گا؟"حیا نے بے بسی بھرے غصہ میں بولا۔
"یار ۔۔چیل کرو اور انجوائے کرو ،تمہارا ہیرو تمہیں کچھ نہیں کہے گا ۔اب چلیں؟"آمنہ نے مز ے سے کہا کے حیا بھی ہنس پڑی ۔
"چلو"حیا ہنستے ہنستے بولی۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اْس کے بعد حیا کی ملاقات اْس سے جانے سے پہلے ہوئی ،وہ خاص طور پر اْسے خدا حافظ کہنے آیا تھا۔
حیا ابھی گھر کے پورچ میں داخل ہوئی تھی کے موبائل تھر تھرایا "امل کالنگ"حیا نے اگلی گھنٹی پر کال اٹھالی۔
"ہیلو،آپ کو یاد آہی گئی حیا کی !"حیا نے خوشگوار انداز میں کہا ۔
"ام م۔۔آج بڑی خوش ہیں آپ"امل بولی۔
"ہاں یار پتہ نہیں کیوں مگر معاذ۔۔۔چھوڑو"حیا خود اپنے جذ بات کو سمجھ نہیں پائی تھی۔
"چلوجو بھی ہے،تم بتاؤ مزہ آیا "امل نے پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
"ہاں یار بہت ذیادہ تم بھی۔۔۔۔"حیا جوش میں بولتی گئی،آدھہ گھنٹہ بعد امل نے خدا حافظ کہہ کر فون رکھ دیا۔
"میں پھر ہار گئی !حیا میں تمہیں تباہ ہوتے کیسے دیکھوں گی؟نہیں میں نہیں بتا سکتی،نہیں میں کیسے "امل ایک دم چلاتے ہوئے رونے لگی،اس کی آواز سن کے مناہل اْسکے کمرے میں آگئی۔
"امل بیٹے کیا بات ہے،نہ بابا نہ روتے نہیں ہیں۔بتاؤ ماما کو بتاؤ شاباش "مناہل اْسے بچوں کی طرح بھلانے لگیں وہ جانتی تھیں کے وہ ڈپریشن میں ہے۔
"ما۔۔۔ما۔۔۔۔حہ۔۔یا۔۔ماما۔۔حیا۔۔مع۔۔ذ۔۔۔ذ،مہ۔۔کیسے۔۔سم۔۔جاؤ۔۔ماما۔۔حیا۔۔بتاؤ۔۔ماما"امل لمبے لمبے سانس لیتی بولتی جارہی تھی۔
مناہل نے نرمی سے بولا۔"Just calm down and tell me"
"ماما حیا معاذ سے محبت کرنے لگی ہے،ماما معاذ اسے بھی تباہ کردے گا،میں ہار گئی!"امل نے سائڈ ٹیبل پر رکھے جگ سے پانی پینے کے بعد آرام آرام سے بولی۔
"امل یہ تمہارا معملا نہیں ہے"مناہل امل کی بات سننے کے بعد برہمی سے بولیں ۔
"ماما حیا میری دوست ہے ،میں اْسے ۔۔"امل پریشانی سے بول رہی تھی مناہل نے اْس کی بات بیچ میں کاٹ دی۔
"جانتی ہو کیا امل،وہ شخص ہماری زندگیوں کو تباہ کرنے کے بعد بھی ہمارے درمیاں موجود ہے،وہ ہار سکتا ہی نہیں ہے کیونکہ تم اْسے ہارنے دیتی ہی نہیں ہو ،وہ آج بھی ہمارے درمیان ہے،ہم اْس کے درمیان نہیں ہیں ۔۔اور جانتی ہو تم آج تک اْس سے محبت کرتی ہو،تم بس پہلے کی طرح اظہار نہیں کرتی کیونکہ تمہیں شرم آتی ہے "مناہل نے آخری جملا مْڑتے ہوئے بولا اور پھر فورا کمرے سے باہر نکل گئیں۔
امل دم بخود سے بیٹھی رہی،پھر جیسے چونکی"کیا میں آج تک۔۔؟"آنسو اس کی آنکھ سے ٹپکا۔
"ہاں آج ت۔۔تم سے نفرت کرنا بہت مشکل ہے معاذ تسلیم"امل نے اعتراف کیا۔
"اتنا مشکل ہے کے میں بے بس ہوگئی ہوں ،تم ایک قاتل ہو اور یہ صرف میں جانتی ہون ،سب سمجھتے ہیں کے بابا کی طبعی موت تھی۔۔مگر ایسا نہیں تھا،اور میں یہ سب جاننے کے بعد بھی تمہاری محبت میں گرفتار ہوں ،معاذ تم سے جو شخص ڈھونڈوں بھی نہیں تلاش کرسکتی اور حیا ۔۔۔وہ بھی تم سے محبت کرنے لگی ہے ،اْس کی آواز نے بتایا ہے مجھے اور میں؟میں حیا کو سب بتادوں؟نہیں!اب میں بھی شطرنج میں اپنی باری کا انتظار کروں گی ،شطرنج ہمیشہ دو بندوں میں کھیلی جاتی ہے اور اب تین ہو گئے ہیں ۔ہم تینوں میں سے کسی ایک کو جانا ہے ۔مجھے ،معاذ کو،یا حیا کو۔اور میں؟میں بس انتظار کروں گی کہ ہم میں سے پہلے کون میدان چھوڑتا ہے ۔میں،حیا یا معاذ؟"امل بے تاثر چہرے کے ساتھ بولتی گئی اور دروازے کے دوسری جانب مناہل نے آنکھیں میچ لیں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
آذان کی آواز سےحیا بیدار ہوئی،آج پہلی دفعہ تھا کے حیا فجر کی آذان سے اٹھی تھی اور اْس کی وجہ برابر میں بنے مدرسہتھا جس کی حال ہی میں تعمیر مکمل ہوئی تھی اور آج وہاں سے دی جانے والی یہ پہلی آذان تھی۔
حیا بستر پر بیٹھے کچھ دیر کروٹ بدلتی رہی پھر کچھ دیر بعد اٹھی اور باتھ روم میں چلی گئی ،پانچ منٹ بعد وہ واپس آئی جب تک آذان ختم ہوچکی تھی اور دور کہیں سے ہلکی ہلکی آذان کی آواز آرہی تھی ۔
حیا کچھ دیر بیڈ پر بیٹھے سوچتی رہی ،پھر کچھ خیال آنے پر کمرے سے باہر نکلی ،رخ اس کا لان کی طرف تھا۔
پرندوں کی چہچاہٹ ہلکی ہلکی آذان کی آوازکو دبانے میں ناکام ثابت ہورہیں تھیں۔
وہ نائٹی چینج کر چکی تھی ،اب وہ سفید لمبی قمیض پر سفید دوپھٹہ شال کے انداز میں اڑہے لان میں داخل ہوئی ۔ہلکی ہلکی روشنی میں بھی لان میں موجود مور اس کو دیکھتے ہی آوازیں نکالتے اْس کی طرف آپہنچےاور اْس کے ساتھ ساتھ چلنے لگے۔
چوکیدار اْسے گیٹ کی طرف بڑھتے دیکھ کر حیران ہوگیا۔
"بی بی جی،آپ کہان جارہی ہیں اس وقت؟"افضل نے حیرانی سے پوچھا۔"افضل بابا میں یہی مدرسہ جارہی ہوں،پانچ منٹ میں واپس آجاؤں گی،آپ دروازہ کھلا رکھے گا،بیل بجنے سے ماما بابا ڈسٹرب ہوجائیں گے"حیا بولی اور اافضل بابا نے تعجب سے دروازہ کھول دیا۔
حیا خوبصورت گمبت والے مدرسے کو دیکھنے لگی"میں جاؤں یا نہیں؟"حیا نے سوچا،پھر اْن خیالوں کو ذہن سے جھٹک کے حیا اندر داخل ہوگئی۔
مدرسے کے فرش پر پیر رکھے ،وہ بہت دیر تک وہین کھڑی رہی،سیاہ کھلے لمبے بال ہمیشہ کی طرح کمر پر گرے دودھیانی رنگت اور سیاہ آنکھیں ، یہاں کسی کی بھی نظروں کا مرکز نہیں بنی ہوئی تھی ۔یہ لڑکیوں کا مدرسہ تھا مگر حیا اْس شخصیت کی مالک تھی ،جیسے لڑکیاں بھی ایک دفعہ دیکھ لیں تو آگے جانے کے بعد مڑ کے ضرور دیکھتی تھیں۔مگر خلاف توقع یہاں بہت سوں نے اْس کو سلام کیا مگر مْڑ کر نہیں دیکھا۔
"یہاں کوئی مجھے رشک والے انداز میں کیوں نہیں دیکھ رہا "حیا کے دل میں آس پاس سے گزرتیں سیاہ برقے میں ملبوس لڑکیوں کو دیکھتے ہوئے آرزو ہوئی کے اْسے بھی ویسے ہی دیکھیں جیسے باہر لوگ دیکھتے ہیں ،مگر وہ سب مگھن آگے بڑھ گئیں اور حیا اْسی طرح کھڑی رہی۔کچھ دیر آس پاس کا جائزہ لینے کے بعد حیا مدرسے کے صحن میں ایک پلر کے ساتھ بیٹھ گئی ۔وہ یہاں نماز پڑھنے نہیں آئی تھی بس ایسے ہی آئی تھی ،اگر وہ کلب پارٹیز میں جاسکتی ہے تو یہاں بھی تو آسکتی ہے ،وہ بس یہی سوچ کے آگئی تھی اور اْسے یہاں وہ سکون محسوس ہوا تھا جو کلب پارٹیز میں نہیں ہوتا تھا۔ایک عجیب سا سکون تھا۔
"بسم اللہ الرحمن الرحیم"
سارے بچے ایک ساتھ ایک آواز میں پڑھنے لگےحیا دائیں جانب بنے حال کی طرف متوجہ ہوگئی ۔
"شروع کرتی ہوں اللہ تعالی کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے"ایک خوبصورت سی آواز میں بچوں کے سامنے کھڑی لڑکی بولی،جسے بچوں نے دہرانا شروع کردیا۔
"الحمد اللہ رب العلمین"
وہ لڑکی اب تلاوت کررہی تھی،جسے بچے بار بار دہرا رہے تھے ۔
"سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔"بچے اْسی طرح دہرانے میں مصروف تھے ۔
"الرحمن الرحیم"
حیا اْن لفظوں کو غور سے سننے لگی ۔۔
"بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا "بچے ابھی بھی پوری جان لگا کر پڑھ رہے تھے ۔
"ملک یومہ الدین"
"بدلے کے دن (یعنی قیامت) کا مالک ہے۔
بچے پورے اتحاد کے ساتھ پڑھنے میں مصروف تھے ،لڑکی کی آواز پورے صحن میں گونج رہی تھی ۔حیا ایک عجیب سے احساس میں کھوتی جارہی تھی۔
"ایاک نعبدو ایا ک نستعین"
"ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں "صحن بس لڑکی اور کچھ لمحے بچوں کی آواز سے گونج رہا تھا ،حیا بہت غور سے سن رہی تھی۔
"اھدنا الصراط المستقیم"
"ہمیں سیدھی (اور سچی ) راہ دکھا۔
لڑکی اْن آیات کو بار بار دہرا رہی تھی ،حیا بت بنی اْسے دیکھ رہی تھی ۔وہ ایک عجیب ہی کشمکش کا شکار تھی۔"سیدھا اور سچا راستہ ؟کون سا راستہ ہے یہ؟"حیا سوچ رہی تھی پھر اْن خیالوں کو جھٹک کر اگلی آیات کی طرف متوجہ ہوگئی ۔
"صراط الذین انعمت علیھم"
"اْن لوگون کی راہ جن پر تو نے انعام کیا ۔"
حیا بت بنی لڑکی کی اور بچوں کی آواز سن رہی تھی۔
"غیر المغضوب علیھم ولا الضا لین"
"ان کی نہیں جن پر غضب کیا گیا ہے اور نہ گمراہوں کی"
بچوں نے دہرانے کے بعد بلند آواز میں "آمین"کہا اور لا شعوری طور پر حیا نے بھی بے آختیار "آمین"کہا ۔آواز بند ہونے پر حیا چونکی ۔اْسے ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ اِس آواز سے بہت مانوس ہو۔وہ ایک عجیب سے احساس میں گھری ہوئی بیٹھی رہی ،پھر کچھ دیر بعد اس لڑکی کو اپنی طرف بڑھتا دیکھ کر حیا اٹھنے لگی ۔مگر اْس لڑکی نے اْسے اپنے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا۔
"میں سعدیہ ہوں اور میں نے ہی یہ مدرسہ تعمیر کروایا ہے ،میں آپ کو بہت دفعہ آتے جاتے دیکھ چکی ہوں ،آپ برابر والے گھر میں رہتی ہیں نہ؟"سعدیہ کی بات پر حیا نے اثباب میں سر ہلایا۔
"مجھے نہیں معلوم تھا کے آپ کا اس طرف رجحان ہے ،مگر مجھے آپ کو یہاں دیکھ کر واقعی خوشی ہوئی "سعدیہ نے اپنی بات اْسی جگہ سے چھوڑی ۔
"میرا نام حیا ہے ،نہیں میں بس ایسی ہی صبح آگئی،میں باقاعدگی سے ایسے کسی مسجد یا مدرسے نہیں جاتی ،بس ایسی ہی ،مگر آپ کی آواز بہت خوبصورت ہے ۔"حیا مسکراتے ہوئے بولی۔
"ایسی ہی انسان اللہ کی جگہ پر نہیں آجاتا ،اس کے دل میں اللہ کے لیے کوئی احساس ہوتا ہے تو آتا ہے نہ،بس اْس کو جاننے کی دیر ہوتی ہے اور جہاں تک میری آواز کا تعلق سے ،وہ تو اللہ کی طرف سے انعام سے ،جسے میں استعمال کر رہی ہوں اور یہ میرا سب سے قیمتی تحفہ ہے "سعدیہ کی بات پر حیا بس مسکرا دی۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سعدیہ سے ہونے والی پہلی ملاقات آخری ثابت نہیں ہوئی وہ کبھی کبھار حیا سے ملنے گھر چلی آتی تھی مگر حیا اب دوبارہ مدرسے نہیں گئی تھی،پتا نہیں کیوں دل چاہنے پر بھی وہ اب دوبارہ اْس کی طرف نہیں گئی تھی۔
حیا ابھی ٹی وی دیکھنے میں مصروف تھی کے سامنے میز پر رکھا اْس کا موبائل تھر تھرایا ۔
"Hello Hayee!
~ Maaz Tasleem
حیا میسج پڑھ کے مسکرائی اور پھر میسج ٹائپ کرنے لگی۔
"Hi Maaz"
حیا نے میسج بھجنے کے بعد اْسکا نام "ماڈو"سے سیف کر کے واپس موبائل میز پر رکھ دیا۔
"وہ مجھے بھول چکی ،بھول چکی"کچھ دیر بعد حیا کا فون واپس تھر تھرایا،
حیا اْس کے میسج پر کھلکھلائی۔
حیا نے آنکھ مارنے والے ایموجی کے ساتھ کہا۔"How do you know that?"
"حئے یار تم مجھ سے بات کرنا نہیں چاہتی کیا ؟"حیا اْس کے میسج پر مسکرائی۔
"ہاں جی۔۔۔"تقریبا ایک گھنٹے معاذ حیا سے بات کرنے کے بعد کمرے سے نکلا،اسمارہ بیگم صوفے پر بیٹھی فون پر بات کررہی تھیں ،اسے آتا دیکھ کر جلدی سے اپنی بات مکمل کی اور فون بند کرکے معاذ کی طرف متوجہ ہوئیں "معاذ تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں کےمایا بھی اْسی یونیورسٹی میں پڑھ رہی ہے،کل جب عمر گیا تو اْس نے مایا کو دیکھا ،وہ پہچانا ہی نہیں اْس کے برقے اور نقاب کی وجہ سے ،وہ خود آگئی اْس کے پاس "اسمارہ بیگم کی بات معاذ نے غیر دلچسپی سے سنی۔
"کیا کہہ رہی تھی"معاذ نے سرسری سا پوچھا۔
"تمہیں کسی لڑکی سے دور رہنے کا کہہ رہی تھی ،کافی دھمکیاں بھی دی ہیں۔ "اسمارہ بیگم نے مشکوک نظروں سے معاذ کو دیکھا ،جو اْن کی بات سن کر چونکا مگر اگلے ہی لمحے تاثرات نارمل کرگیا۔
"معاذ کون ہے حیا؟"اسمارہ بیگم کی آواز پہلے سے اونچی تھی ،"معاذ میں کچھ پوچھ رہی ہوں"معاذ کو خاموش پا کر اسمارہ بیگم غصہ سے بولیں ۔
"لڑکی ہے !"معاذ نے شوخ لہجے میں کہا۔
"معاذ میں مذاق نہیں کررہی"اب آواز قدرے نرم تھی۔
"اماں میں اچھے موڈ میں ہوں خراب نہ کریں ۔"معاذ نے چڑ چڑاتے ہوئے بولا۔
"اچھے موڈ ؟معاذ خدا کا خوف کرو ،تم مایاکو بھول گئے ہو کیا؟اس کی وجہ سے کیا کیا کرنا پڑا تھا ہمیں؟اْس سب کے بعد بھی تم حماقتیں کرنا بند نہیں کرو گے؟"اسمارہ بیگم نے عجیب سے لہجے میں کہا جیسے اعتراف کرنا عجیب سا لگا ہو۔
"اماں!میں اس مایا کی وجہ سے کیا اپنی زندگی ہی نہ جیوں او ر وہ اْس کی دھمکیوں کی مجھے پروا نہیں ،حیا جیسی لڑکیاں روز روز نہیں ملتیں ۔"معاذ غیر دلچسپی سے بولا۔
"تم اس کے بارے میں سیریئس ہو؟"اسمارہ بیگم کچھ دیر خاموشی کے بعد بولیں ۔
"ہاں!مجھے اْس سے محبت ہو گئی ہے ۔"معاذ تھکے تھکے لہجے میں بولااور پھر جب سر اٹھا کر دیکھا تو اسمارہ بیگم سامنے موجود نہیں تھیں ۔وہ تھکے تھکے انداذ میں صوفے سے اٹھ کر کمرے میں آگیا۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ